کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 209
بیہقی نے دونوں حدیثوں کو صحیح کہا ہے؟ شاید ڈیروی صاحب کے نزدیک ’’صحیح ‘‘کا لفظ بولنا ضروری ہے۔ اس کی ضروری وضاحت بھی دیکھ لیجیے کہ پہلی روایت ابن اسحاق عن نافع عن ابن عمر سے مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ ’’اذا نعس احدکم یوم الجمعۃ ‘‘ الحدیث کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی کو جمعہ کے روز اونگھ آئے تو اسے چاہیے کہ جگہ بدل لے۔ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی فرماتے ہیں کہ یہ روایت عمرو رحمہ اللہ بن دینار حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے موقوفاً بیان کرتے ہیں السنن الکبریٰ ( ج ۳ ص ۲۳۷) اور المعرفۃ ( ج ۲ ص ۵۲۰) میں بھی امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہی موقف معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت موقوفاً صحیح ہے، مرفوعاً نہیں مگر ابن اسحق کی یہ روایت ابو داؤد(ج ۱ ص ۴۳۶) ترمذی (ج ۱ص ۳۷۲)، ابن حبان ( ج ۴ص ۲۲۰ )، مستدرک حاکم ( ج ۱ ص ۲۹۱)، مسند احمد(ج ۲ ص ۲۲،۳۲) اور ابن خزیمہ (ج ۳ ص ۱۶۰) میں ہے۔ امام ترمذی نے اسے حسن صحیح ، حاکم نے صحیح علی شرط مسلم کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا اسے اپنی صحیح میں لانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے نزدیک صحیح ہے۔ علاوہ ازیں ابن رحمہ اللہ اسحاق اس میں منفرد نہیں۔ امام یحییٰ بن سعید انصاری بھی اسے نافع سے مرفوع ہی ذکر کرتے ہیں۔ جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ۔ لہٰذا ابن اسحاق اس میں منفرد نہ رہے۔ اس لیے امام بیہقی رحمہ اللہ نے کتاب القراء ۃ میں کہا ہے ابن اسحاق رحمہ اللہ پر اس کی ذمہ داری ختم ہو گئی، مگر یحییٰ بن سعید کی روایت میں ان کے شاگرد عبد رحمہ اللہ الرحمن بن محمد المحاربی مدلس ہیں اور روایت معنعن ہے اور یہی اعتراض ڈیروی صاحب نے ایک نظر (ص ۲۸۸،۲۸۹) میں کیا ہے۔ مگر انھوں نے اس پر غور نہیں کیا کہ ہم تو یہ روایت استشہاداً اور تائیداً پیش کر رہے ہیں۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے المحاربی کی تدلیس کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ: ولو لا ذٰلک لکان السند صحیحا فلا أقل من ان یصلح للاستشھاد بہ۔ (الصحیحہ : رقم: ۴۶۹) اگر تدلیس نہ ہوتی تو یہ سند صحیح ہوتی لہٰذا یہ اس درجہ سے کم نہیں کہ یہ استشہاد میں پیش