کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 208
تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۲۱۵) میں ذکر کیا ہے۔ بلکہ علامہ المزی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تو ابن اسحاق رحمہ اللہ سے روایت کرنے والوں میں سب سے پہلے امام یحییٰ بن سعید انصاری کا نام لیا ہے اور کہا کہ امام یحییٰ رحمہ اللہ ، ابن رحمہ اللہ اسحاق کے استاد بھی ہیں(التہذیب: ج ۱۶ ص ۷۳، تہذیب التہذیب ج ۹ ص ۳۹) ۔ لہٰذا جب امام یحییٰ بن سعید انصاری رحمہ اللہ خود ابن اسحاق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں تو اہل کوفہ کا ابن اسحاق سے روایت کرنا ان کے لیے باعث تعجب کیوں ہے ؟ اس لیے صحیح یہی ہے یہ جرح امام یحییٰ قطان رحمہ اللہ سے ہے امام یحییٰ انصاری رحمہ اللہ سے نہیں۔ ابن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ اورامام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کو ثقہ اوراس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کی کتاب دیکھی تو میں نے اس میں صرف دو حدیثیں قابل گرفت پائیں اور ممکن ہے کہ وہ بھی صحیح ہوں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی یہ دونوں حدیثیں ذکر کی ہیں اور لکھا ہے کہ یہ دونوں صحیح ہیں (توضیح : ج ۱ ص ۲۴۶،۲۷۰)۔ مولانا ڈیروی صاحب کتاب القراء ۃ سے ان دونوں روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : اثری صاحب نے جو یہ فرمایا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ دو حدیثیں بھی صحیح ہیں، یہ خالص جھوٹ ہے۔ باقی علی بن مدینی کا یہ فرمانا کہ ممکن ہے کہ یہ دو حدیثیں بھی صحیح ہوں یہ صحیح نہیں ، کیونکہ یہ محمود بن اسحاق الخزاعی کی سند سے ہے جو قابل اعتماد نہیں(ایک نظر: ص ۲۸۸) انتہائی افسوس کی بات ہے کہ خود ڈیروی صاحب کتاب القراء ۃ کے حوالے سے امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں : فخرج ابن اسحاق من عہدۃ الحدیث کما قال البخاری عن علی بن المدینی و یمکن ان یکونا صحیحین جس کا ترجمہ انھوں نے یہ کیا ہے: پس ابن اسحاق دونوں حدیثوں کے عہدہ سے آزاد ہو گیا۔ جیسا کہ امام بخاری نے علی بن المدینی سے روایت کیا ہے اور ممکن ہے کہ دو حدیثیں بھی صحیح ہوں۔ (ایک نظر: ص ۲۸۸، کتاب القراء ۃ : ص ۴۰) اب کوئی ان سے پوچھے کہ امام بیہقی نے جب یہ فرما دیا ہے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق ان دونوں حدیثوں کی ذمہ داری سے آزاد ہو گیا۔ اور اس کی تائید میں امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا تو کیا اس سے یہ بات واضح نہیں ہو جاتی کہ امام