کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 206
کرتے ہیں۔ انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔!
۴۔۔ ڈیروی صاحب مزید فرماتے ہیں:’’پھر اس کے استاد کا ابوالمیمون البجلی سے سماع ہے یانہیں؟ حالانکہ ہم بحوالہ ذکر کر آئے ہیں کہ ابو محمد عبدالرحمن بن عثمان أنبأنا ، اخبرنا کہتے ہیں۔ بتلائیے تصریح سماع اور کیا ہوتی ہے ؟
۵۔۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ ’’ اس کے حالات نامعلوم ہیں۔‘‘ حالانکہ امام ابومحمد عبدالرحمن بن عثمان کے شیخ ابوالمیمون رحمہ اللہ عبدالرحمن بن عبدالله کا ترجمہ السیر (ج ۱۵ ص ۵۳۳) وغیرہ میں موجود ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے انھیں’’ الشیخ الامام الادیب الثقۃ المامون‘‘ ’ کے القاب سے یاد کیا ہے اور امام ابومحمد عبدالرحمن بن عثمان کا ترجمہ بھی السیر(ج ۱۷ ص ۳۶۶) وغیرہ میں موجود ہے۔ علامہ ذہبی رحمہ اللہ انھیں ’’ الشیخ الامام المعدل مسند الشام الملقب بالشیخ العفیف‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے مگر حضرت فرماتے ہیں:’’ اس کے حالات نامعلوم ہیں۔‘‘ ہم نے دونوں کے حالات کے بارے میں اشارہ کر دیا تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے۔
ہماری اس وضاحت سے یہ بات نصف النہار کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ دمشقی نے جو ابن رحمہ اللہ اسحاق کی توثیق کی ،وہ درست ہے۔ ان کی اپنی کتاب میں وہ موجود ہے۔ اورا ن کی کتاب سے خطیب بغدادی نے جن دو سندوں سے ان کا قول نقل کیا وہ دونوں سندیں صحیح اور قابل اعتبار ہیں اور ڈیروی صاحب کے ان پرا عتراضات سراسر دھوکا اور بے خبری کا نتیجہ ہے۔
ابن رحمہ اللہ اسحاق اور امام ابوزرعہ رحمہ اللہ رازی
امام ابوزرعہ رحمہ اللہ رازی نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کو صدوق قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ’’ من تکلم فی محمد بن اسحاق‘‘ کہ محمد رحمہ اللہ بن اسحاق پر کس نے کلام کیا ہے ؟ جیسا کہ الجرح والتعدیل کے حوالے سے پہلے گزر چکا ہے۔ البتہ انھوں نے حدیث قلتین پر نقد کیا ہے اوراسے مضطرب قرار دیا ہے جیسا کہ توضیح (ج۱ ص ۲۴۲) میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ اسی بنیا د پر ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے ابن رحمہ اللہ اسحاق کی روایت قلتین کو