کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 205
عثمان بن القاسم الدمشقی فی کتابہ إلینا قال انبأنا ابوالمیمون البجلی قال قال ابوزرعۃ ‘ ‘یہ سند خطیب نے تاریخ بغداد ( ج ۱ص ۵۰) میں بھی ذکر کی ہے اور وہاں ’’ انبانا ابوالمیمون قال نبأنا ابوزرعۃ‘‘ اور (ج ۹ ص ۴۸۱) میں اخبرنا ابوالمیمون اخبرنا ابوزرعۃ ہے۔ نیز دیکھیے (ج ۱۰ ص ۱۸،۲۱۳،۳۸۸، ج ۷ ص ۱۲۷) وغیرہ۔ اس سند کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’خطیب بغدادی کے استاد ابو محمد عبدالرحمن بن عثمان نے اپنا خط بھیجا تھا خطیب کا اپنے استاد سے سماع ہے یا نہیں۔‘‘ حیرت ہے کہ شیخ الحدیث کے بلند منصب پر فائز بزرگ بھی کتابۃً اجازت کو انقطاع پر محمول کرتے ہیں ، حالانکہ حدیث کا ابتدائی طالب علم خوب جانتا ہے کہ اتصال سند کے لیے سماع کے علاوہ الاجازۃ ، المناولۃ، الکتابۃ کی بھی صورتیں ہیں اور یہ تینوں اتصال پر محمول ہیں بلکہ ’’الکتابۃ‘‘ جس میں راوی ’’ کتب الی فلان‘‘ کہ ’’فلاں نے میری طرف لکھا ‘‘ صحت و قوت میں ’’ مناولۃ مقرونہ‘ ‘کے برابر قرار دیا گیا ہے جس کی تفصیل تدریب الراوی (ص ۲۷۷) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اور یہی آخری صورت ابو محمد عبدالرحمن بن عثمان سے روایت میں ہے کہ خطیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے مجھے لکھ کر بھیجا۔ علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ یوجد فی مصنفاتھم کتب الی فلان قال حدثنا فلان ، والمراد بہ ھذا و ھو معمول بہ عندھم معدود فی الموصول لإشعارہ بمعنی الاجازۃ وزاد السمعانی فقال ھی اقوی من الاجازۃ ‘‘ (تقریب مع التدریب: ص ۲۷۸) محدثین کی تصانیف میں یہ پایا جاتا ہے کہ: فلان نے مجھے لکھا ، اس نے کہا کہ فلاں نے ہمیں حدیث بیان کی، اوراس سے یہی (الکتابہ) مراد ہوتا ہے اور یہ محدثین کے ہاں معمول ہے اور موصول شمار ہوتا ہے کیونکہ اس میں اجازہ کا معنی پایا جاتا ہے اور سمعانی رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ اجازہ سے زیادہ قوی ہے۔ مگر افسوس کہ شیخ الحدیث صاحب اتصال سند کے لیے یہاں سماع کے ثبوت کا مطالبہ