کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 204
مگر یہاں توانھوں نے بہت سی حقیقتوں کا انکار کیا ہے:
۱۔۔ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ الدمشقی کی ’’کتاب التاریخ‘‘ ایک مستقل کتاب ہے اور اسی سے خطیب بغدادی نے اپنی سند سے اس کی روایات بیان کی ہیں۔ الدکتور اکرم ضیاء العمری حفظہ الله نے ’’موارد الخطیب البغدادی فی تاریخ بغداد‘‘ کے ص ۳۵۴،۳۵۶ میں خطیب کے اس ماخذ کا ذکر کیا ہے۔ بلکہ حاشیہ میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۲۲۴) میں امام ابوزرعہ کا زیر بحث قول کتاب التاریخ کے خطی نسخہ کے ص ۹۵ پر موجود ہے۔ اس حقیقت کے بعد اس کی سند پر کلام ڈیروی صاحب کی لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
ایک اور دھوکا
۲۔۔ تیس مار خاں بننے کے لیے تاریخ بغداد (ج ۳ ص ۵۱،۵۲) کے حوالے سے جو انھوں نے یہ نقل کیا کہ اس قو ل کی سند کا راوی محمد بن عثمان القاضی کذاب ہے۔ مگر یہ جان کر آپ کی حیرت میں یقینا اضافہ ہوگا کہ ڈیروی صاحب نے خطیب بغدادی کی یہ وضاحت نظر اندا ز کر دی کہ ’’ کان امر النصیبی فی وقت سماعنا ھذا الکتاب منہ مستقیما ثم فسد بعد ذٰلک‘‘ کہ جب ہم نے نصیبی سے اس کتاب (امام ابوزرعہ کی کتاب التاریخ) کا سماع کیا تو اس کا معاملہ درست تھا، پھر اس کے بعد اس کا معاملہ بگڑ گیا۔
بلکہ خطیب رحمہ اللہ نے الازہری رحمہ اللہ سے بھی نقل کیا ہے:’’ کان امرہ فی الابتداء مستقیما‘‘کہ اس کا ابتدا میں حال درست تھا(تاریخ بغداد :۳؍۱۵۲، لسان :۵؍۲۸۲) لہٰذا جب خود خطیب نے ہی اس بات کی وضاحت کر دی تو اب اسے نظر انداز کرکے محمد بن عثمان پر اعتراض کرنا اوراس روایت کو ضعیف قرار دینا سراسر دھوکا اور اپنے حواریوں کی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کے مترادف نہیں تو اور کیا ہے؟ افسوس کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب کس قدر دیدہ دلیری سے حقائق کو چھپانے کا مذموم کردار ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں محمد بن عثمان اس میں منفرد بھی نہیں ۔ خطیب نے اس کتاب کی روایت ایک اور سند سے بھی بیان کی ہے۔ اس لیے محمد بن عثمان کی بنا پر اسے ضعیف قرار دینا بہرآئینہ غلط ہے۔
۳۔۔ دوسری سند اس کتاب کی یوں ہے:’’ اخبرنا ابو محمد عبدالرحمٰن بن