کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 201
لابی زرعہ الرازی میں جو ابوزرعہ وجھودہ فی السنۃ النبویۃ (ج ۲ص۵۹۲، ۵۹۳) میں مطبوع ہے، میں بھی موجود ہے۔السیر اور الارشاد کی عبارت میں صرف مقام کا فرق ہے۔ السیر میں مسجدخیف کا جب کہ الارشاد میں ’’قبر ‘‘ کا ذکر ہے۔ معنوی طور پردونوں میں کوئی فرق نہیں۔ غورفرمائیے ابراہیم بن منذر مدنی ہیں اور امام مالک رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں انھوں نے اہل مدینہ کا قول ابن رحمہ اللہ اسحاق کے بارے میں ذکر کیا تو امام ابن رحمہ اللہ عیینہ نے فرمایا یوں نہ کہو۔ چنانچہ اہل مدینہ کے قول کی تردید میں انھوں نے فرمایا کہ میں نے اسے یزید رحمہ اللہ بن خصیفہ کے انتظار میں پایا کہ وہ ابن خصیفہ کی وہ روایات جو میر ے واسطہ سے ابن اسحاق رحمہ اللہ نے لی ہیں ان کا براہ راست یزید رحمہ اللہ بن خصیفہ سے سماع کرے۔ ظاہر ہے کہ جو اس حقیقت سے بے خبر ہوگا کہ ابن اسحاق نے براہ راست ابن خصیفہ رحمہ اللہ سے سماع کیا ہے وہ اس کی ابن خصیفہ سے روایات کو یا تدلیس پر محمول کرے گا یا اس کے دعویٰ سماع میں اسے متہم قرار دے گا۔ حالانکہ وہ دونوں اعتبار سے صادق ہے۔ اس نے وہ روایات ابن عیینہ رحمہ اللہ کے واسطہ سے سنیں اور وہی روایات براہ راست ابن خصیفہ رحمہ اللہ سے بھی سنیں۔ اندازہ کیجیے کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کی صداقت اور طلب علو پر جو دلیل امام ابن رحمہ اللہ عیینہ نے دی ڈیروی صاحب نے اسے نظر انداز کر دیا۔
امام علی رحمہ اللہ بن مدینی نے بھی ابن رحمہ اللہ اسحاق کے صادق ہونے کی یہ دلیل دی ہے کہ ابن اسحاق رحمہ اللہ نے جس راوی سے براہ راست سنا ہوتا ہے کبھی وہ اس سے ایک واسطہ سے بھی روایت کرتے ہیں۔ جس کی تفصیل الثقات لابن حبان (ج ۷ ص ۳۸۴) اور تاریخ بغداد (ج ۱ ص ۲۲۹) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا ابن عیینہ رحمہ اللہ کے کلام کو ذکر نہ کرنا کھلی بددیانتی ہے۔
اہل مدینہ وغیرہ نے اگرچہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کو قدری فرقہ سے متہم کیا ہے مگر محمد رحمہ اللہ بن عبدالله بن نمیر فرماتے ہیں: کان محمد بن اسحاق یرمی بالقدر و کان أبعد الناس منہ کہ ابن رحمہ اللہ اسحاق کو قدریہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، حالانکہ وہ اس سے لوگوں میں سب سے زیادہ دور تھے۔(تاریخ بغداد: ج۱ ص ۲۲۶، السیر : ج ۷ ص ۴۳، التہذیب: ج ۹ ص ۴۲ وغیرہ)