کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 200
بھی خیانت کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ اس قول کے مکمل الفاظ یوں ہیں:
رأیت ابن اسحاق فی مسجد الخیف فاستحییت ان یرانی معہ احد فقال أنا ارصد ابن خصیفۃ أبغی ان أسالہ عما حدثنی عنہ ثم قال ابن عیینۃ اتھموہ بالقدر۔ (السیر: ج ۷ ص ۵۱،۵۲)
میں نے ابن اسحاق کو مسجد خیف میں دیکھا مجھے حیا آ رہی تھی کہ مجھے کوئی اس کے پاس بیٹھا ہوا دیکھے۔ ابن اسحاق نے کہا میں ابن خصیفہ کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں ان سے ان احادیث کے بارے سوال کروں جو مجھے ان سے بیان کی گئی ہیں۔ پھر ابن رحمہ اللہ عیینہ نے کہا انھوں نے اسے تقدیر کے انکار سے متہم کیا ہے۔‘‘ درمیان میں یہ خط کشیدہ الفاظ ڈیروی صاحب نے کیوں حذ ف کیے ؟ اس کا بھی ایک پس منظر ہے ۔ چنانچہ اسے جاننے کے لیے امام خلیلی رحمہ اللہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں۔ابراہیم بن المنذر فرماتے ہیں : مجھے ابن رحمہ اللہ عیینہ نے کہا:
ما یقول اصحابک فی محمد بن اسحاق فقلت یقولون انہ کذاب ، قال لا تفعل ذلک فلقد رأیتہ خلف القبر ینتظر یزید بن خصیفۃ ، فقلت ما تعمل ھاھنا ؟ قال انتظر یزید بن خصیفہ اسمع منہ الاحادیث التی أفدتنی۔ (الارشاد : ج ۱ ص ۲۸۹)
آپ کے اصحاب محمد بن اسحاق کے بار ے میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا : وہ اسے کذاب کہتے ہیں۔ ابن رحمہ اللہ عیینہ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، بے شک میں نے ابن اسحاق کو قبر کے پیچھے دیکھا یزید بن خصیفہ کا انتظار کر رہے تھے۔ تو میں نے کہا: آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ انھوں نے کہا: میں یزید بن خصیفہ کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ میں ان سے وہ احادیث (براہ راست) سنو ں جو آپ سے مجھے حاصل ہوئی ہیں۔
یہی روایت معمولی اختلاف سے الثقات لابن شاہین (ص ۲۰۰) میں اور الضعفاء