کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 199
بالقدر‘‘ (الکامل: ج ۶ ص ۲۱۱۷) کہ میں ابن اسحاق کے پاس ستر سے زائد سال بیٹھا ہوں۔ اہل مدینہ کے کسی شخص نے انھیں متہم قرار نہیں دیا اور نہ کسی نے کچھ کہا، مگر وہ اسے تقدیر سے متہم کرتے تھے کہ وہ قدری ہے۔ امام عقیلی رحمہ اللہ نے امام ابن رحمہ اللہ عیینہ کا یہ قول ان الفاظ سے نقل کیا ہے : ما سمعت احداً یتکلم فی ابن اسحاق الا فی قولہ فی القدر۔ (الضعفاء: ج ۴ ص ۲۶) میں نے کسی کو ابن اسحاق کے بارے میں کلام کرتے ہوئے نہیں سنا۔ صرف ان کے قدری ہونے کے بارے میں۔ لیجیے جناب! اگر ان دونوں میں کوئی منافات ہوتی تو ایک ہی جملہ میں پہلے کلام کی نفی اور پھر اثبات کیوں کر ہوتا؟ اسی طرح الضعفاء لابی زرعہ (ج ۲ ص ۵۹۲) میں ہے: انی لأعرفہ(مطبوعہ میں لا أعرفہ ہے مگر وہ صحیح نہیں) منذ نحو سبعین سنۃ ما سمعت احدا یذکر فیہ الا القدرکہ میں اسے ستر سال سے جانتا ہوں۔ میں نے کسی سے نہیں سنا کہ سوائے قدر کے اس میں کسی نے کلام کیا ہو ۔ بلکہ امام یعقوب رحمہ اللہ بن سفیان فسوی نے نقل کیا ہے کہ: قال سفیان لم یحمل علیہ احدا فی الحدیث اذا کان أھل المدینۃ حملوا علیہ من اجل القدر۔(المعرفۃ والتاریخ : ج ۲ ص ۲۷) ’’ امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ نے فرمایا کسی نے ابن اسحاق پر حدیث کے بارے میں اعتراض نہیں کیا۔ البتہ اہل مدینہ نے قدر کی وجہ سے اعتراض کیا ہے۔ ‘‘ خود امام سفیان رحمہ اللہ بن عیینہ کی اس وضاحت کے بعد اسی حوالے سے اعتراض حقیقت کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کا یہ قول نقل کرنا بھی بے سود بلکہ دھوکا پر مبنی ہے۔ نقل عبارت میں خیانت کا ارتکاب مزید برآں ڈیروی صاحب نے السیر (ج ۷ ص ۵۱) سے یہ قول نقل کرتے ہوئے