کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 198
ہوئے (تہذیب: ج ۴ ص ۴۳۷) اور مصعب ۶۷ھ میں عراق کے امیر بنے اور ۷۱ھ یا ۷۲ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ (البدایہ : ج ۸ ص ۲۸۷،۳۱۴، السیر: ج ۴ ص ۱۴۳) بایں صورت صلۃ رحمہ اللہ بن زفر کی وفات ۷۰ یا ۷۱ھ میں بھی تسلیم کی جائے تو ابواسحاق رحمہ اللہ کی عمران کی وفات کے وقت اڑتیس یا زیادہ سے زیادہ اکتالیس ، بیالیس سال بنتی ہے مگر ابواسحاق رحمہ اللہ تو فرما رہے ہیں کہ ستر سال سے میں نے ان سے یہ روایت سنی ۔ غور فرمائیے ڈیروی صاحب کی زبان میں ستر سال پہلے اس حدیث کے سننے کی بات ’’خالص جھوٹ‘‘ نہیں؟ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے ۔ یہ الفاظ عرب عموماً حصر اور شمار کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ مراد کثرت ہوتی ہے مگر ڈیروی صاحب کی تحقیق میں یہ ’’خالص جھوٹ‘‘ ہے لیکن یہ نہیں بتلاتے کہ یہ جھوٹ کس نے بولا اور اس جھوٹے کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
بہترواں دھوکا
جناب ڈیروی صاحب نے اپنے خیال کے مطابق پہلے قول کو خالص جھوٹ قرار دیا اوراس کے مقابلے میں امام ابن عیینہ رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کیا کہ ’’میں نے ابن اسحاق رحمہ اللہ کو مسجد الخیف میں دیکھا ،مجھے شرم آ رہی تھی کہ مجھے کوئی بیٹھا ہوا ابن اسحاق رحمہ اللہ کے پاس دیکھ لے کیونکہ محدثین کرام نے تقدیر کے انکار کے ساتھ متہم کیا ہوا ہے۔ السیر،(ایک نظر: ص ۲۸۳)
گویا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ابن رحمہ اللہ عیینہ خود اسے قدری کہتے ہیں۔ لہٰذا پہلا قول کیونکر صحیح ہوا، حالانکہ ان دونوں میں کوئی منافات نہیں۔ پہلے قول میں حدیث کے لحاظ سے متہم ہونے کی نفی ہے اور دوسرے قول میں قدری ہونے کے اعتبار سے اعتراض کا ذکر ہے۔ اور یہ بات تو پہلے گزر چکی ہے کہ راوی کا بدعتی ہونا اس کی ثقاہت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ جس کا اعتراف ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے احسن (ج۱ ص ۳۰) میں بھی کیا ہے۔ لہٰذا جب ابن اسحاق رحمہ اللہ کا قدری ہونا موجب ضعف نہیں تو اس قول کے ذکر کرنے کا کیا فائدہ ؟ بالخصوص جب کہ امام ابن رحمہ اللہ عدی نے امام ابن رحمہ اللہ عیینہ کا یہ قول اسی اضافہ کے ساتھ یوں نقل کیا ہے۔
’’ جالست ابن اسحاق منذ بضع و سبعین سنۃ فما یتعمد احد من اھل المدینۃ ولا یقول فیہ ]شیئًا[ الا انھم اتھموہ