کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 196
نے نقل کیا ۔ ہمیں بتلایا جائے یہ ’’خالص جھوٹ‘‘ کس نے بولا ہے؟اور جھوٹ کا یہ تمغا کن کن کے لیے سزاوار ہے؟ صالح رحمہ اللہ ،امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے اورمشہور محدث ہیں۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے الامام المحدث الحافظ الفقیہ کے بلند القاب سے یاد کیا ہے، جو بالاتفاق ثقہ ہیں۔ السیر(ج ۱۲ ، ص ۵۲۹)، طبقات الحنابلہ (ج۱ ص ۱۷۳) وغیرہ۔ امام علی بن مدینی کو کون نہیں جانتا۔ جب سند بالکل صحیح ہے تو اسے ’’خالص جھوٹ‘‘ کہنے والا خود کیوں خالص جھوٹا نہیں ؟ جو ان سچوں کی طرف جھوٹ کی نسبت کر رہا ہے۔ ثانیاً: کیا ڈیروی صاحب اس سے بے خبر ہیں کہ ستر بار یا اس سے زائد میں ہمیشہ ستر کی تعداد مقصود نہیں ہوتی کہ وہ یہاں حساب کتاب سے اپنے علم وفضل کا اظہار کرتے ہیں اور ان ائمہ کرام کی طرف جھوٹ کی نسبت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ﴿ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً ﴾ (التوبۃ: ۸۰) کے تحت لکھا ہے: ’’ ان العرب فی اسالیب کلامھا تذکر السبعین فی مبالغۃ کلامھا ولا ترید التحدید بھا ولا أن یکون مازاد علیھا بخلافھا۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر : ج ۲ ص ۴۱۴) کہ عرب اپنے کلام میں ستر کا ذکر مبالغہ کے طور پر کرتے ہیں اور اس سے تحدید مراد نہیں لیتے اور نہ اس میں اس سے زائد کو اس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اسی طرح علامہ زبیدی رحمہ اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: والسبعون عدد ، ھوالعقد الذی بین الستین والثمانین وقد تکرر ذکرہ فی القراٰن والحدیث والعرب تصفہا بوصف التضعیف والتکثیر کقولہ تعالٰی ان تستغفرلھم سبعین مرۃ فلن یغفر اللّٰہ لھم فھو لیس من باب حصر العدد۔ الخ (تاج العروس : ج ۵ ص ۳۷۳) ستر کا عدد، اور وہ ساٹھ اور اسّی کے درمیان ہے، اس کا ذکر قرآن اور حدیث میں کئی