کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 193
انھترواں دھوکا
آیت کا شان نزول
امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن ( ج ۲ ص ۱۵۵) میں واذا قرئ القرآن الآیۃ کے بارے میں معاویہ رحمہ اللہ بن قرۃ سے اس کا شان نزول نقل کیا جس کے بارے میں راقم نے عرض کیا تھا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ اور اس میں عون بن موسیٰ دراصل سفیان بن موسیٰ ہے اور وہ صدوق ہے۔ توضیح ( ج ۳ ص ۱۰۳) اسی کے بارے میں جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں: امام بیہقی رحمہ اللہ نے عون رحمہ اللہ بن موسیٰ نقل کیا ۔ اسے سفیان رحمہ اللہ بن موسیٰ بنانا اوراس کی توثیق کرنا اثری صاحب کا کارنامہ ہے۔الخ (ایک نظر: ص ۲۸۱)
راوی عون رحمہ اللہ بن موسیٰ بھی ثقہ ہے
بلاشبہ عون رحمہ اللہ بن موسیٰ کو متعین کرنے میں اس ناکارہ سے غلطی ہوئی مگر سوال یہ ہے کیا سند میں عون رحمہ اللہ بن موسیٰ ضعیف ہیں؟ عون رحمہ اللہ بن موسیٰ ضعیف ہوتے اورا سے سفیان رحمہ اللہ بن موسیٰ بنا کر ثقہ کہا ہوتا تو یہ ’’کارنامہ‘‘ ہوتا مگر ڈیروی صاحب یہ کیوں نہیں بتلاتے کہ عون رحمہ اللہ بن موسیٰ ضعیف ہے یا ثقہ؟ ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
حالانکہ عون رحمہ اللہ بن موسیٰ جو اس روایت میں معاویہ بن قرۃ سے روایت کرتے ہیں ان کا ترجمہ امام ابن ابی حاتم نے الجرح والتعدیل (ج ۳ ق ۱ ص ۳۸۶ ) میں اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات (ج ۷ ص ۲۸۰) میں ذکر کیا ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ثقہ ، ابوحاتم نے لابأس بہ کہا ، العجلی رحمہ اللہ نے تاریخ الثقات (ص ۳۷۸) میں اور ابن شاہین نے بھی الثقات میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا جب عون رحمہ اللہ بن موسیٰ بھی ثقہ ہے تو سند بہرحال صحیح رہی۔ ڈیروی صاحب اگرا س حقیقت سے بے خبر ہیں تو فبہا ورنہ دیانت داری کا تقاضا تھا کہ وہ اس کا ترجمہ ذکرکرتے مگر مسلکی دفاع میں اس کی جراء ت نہیں کر سکے۔