کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 192
دوسروں کے ساتھ کیا۔
اس میں تو حافظ ابن حزم نے یہ وضاحت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس واقعہ سے پہلے رکوع دون الصف کی ممانعت نہیں کی تھی۔ اسی لیے انھیں اعادہ رکعت کا حکم نہیں فرمایا۔ اس کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رکعت پورا کرنے نہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں اور نہ یہ ان کے پہلے موقف کے معارض ہے۔ بلکہ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے اس موقف کے مطابق تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مدرک رکوع کی رکعت کے ہونے ، نہ ہونے کے بارے میں پہلے کوئی حکم نہ تھا ۔ اس میں وضاحت فرما دی کہ صل ما ادرکت واقض ما سبقک جتنا حصہ پالو وہ پڑھو اور جو رہ جائے اسے پورا کرو۔ ا س حکم کے بعد احتمال ہے کہ انھوں نے رکعت پوری کرلی ہوگی۔ نیز اس حکم کے بعد مدرک رکوع کی رکعت کا جواز بھی باقی نہیں رہتا کہ قیام اور قراء ۃ دونوں رہ گئے۔انھیں پورا ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث سے گو رکوع دون الصف کی ممانعت پر استدلال کیا ہے۔ لیکن یہ استدلال محل نظر ہے۔ ممانعت بھاگ کر آنے سے تھی۔ رکوع دون الصف کی نہیں۔ اگر یہ بھی ممنوع ہوتا تو حضرت عبدالله بن زبیر رضی اللہ عنہ برسر منبر اسے سنت قرار نہ دیتے جیسا کہ ہم پہلے باحوالہ نقل کر آئے ہیں۔ امام رکوع میں ہو تو صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کرکے رکوع میں ملنے ، اسی طرح سجدہ میں ہو یا جس حالت میں ہو امام سے فوراً ملنے کا حکم ہے۔ بلاشبہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایسی صورت میں رکوع سے ملنے سے رکعت کے قائل ہیں مگر بعض اس کے قائل نہیں۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے فرمان : صل ما ادرکت واقض ما سبقک کے مطابق یہی راجح ہے۔ اور کوئی روایت صحیح ایسی نہیں جس میں مدرک رکوع کی رکعت کو تسلیم کیا گیا ہو۔ جن روایات میں من ادرک الرکعۃ کہ جس نے رکعت پالی اس نے نماز پالی، وہ محتمل المعنی ہے اور عموماً احادیث میں رکعۃ سے مراد پوری رکعت ہے رکوع نہیں، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ میں تفصیلاً ذکر کیا ہے۔