کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 190
نے السنن الکبریٰ میں فرمایا ہے۔ اس سے چشم پوشی ڈیروی صاحب کیوں کر رہے ہیں؟ بلاشبہ جمہور نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ استدلال کیا لیکن کیا یہ استدلال صحیح ہے؟ یہی بات محل نظر ہے۔ ایک اور دھوکا ڈیروی صاحب لکھتے ہیں: مصنف عبدالرزاق (ج ۲ ص ۲۸۱،۲۸۲) میں عن الثوری عن عبدالعزیز ۔۔الخ کی سند سے مروی ہے۔ ولا تعتدوا بالسجود الا ان تدرکوا الرکعۃ اور سجود کی وجہ سے رکعت شمار نہ کرو مگر یہ کہ تم رکوع میں پالو۔(ایک نظر: ص ۲۸۰) ڈیروی صاحب کی ہوشیاری اور دھوکا دہی دیکھیے کہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے بعد کی سند مصنف عبدالرزاق سے نقل ہی نہیں کی، جب کہ مصنف میں عن الثوری عن عبدالعزیز بن رفیع عن شیخ الانصارہے اور امام ثوری کی سندہی سے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج ۲ ص ۲۹۶) میں عن شیخ من الانصارہے اور یہ مبہم ہے۔علامہ البوصیری نے اتحاف الخیرہ (ج ۲ ص ۲۰۹،۲۱۰) میں یہی روایت ذکر کی ہے اور محشی نے نقل کیا ہے کہ علامہ بوصیری نے مختصر میں فرمایا ہے: رواہ مسدد و بیہقی بسند ضعیف بجھالۃ التابعی کہ اسے مسدد اور بیہقی نے ضعیف سند سے روایت کیا ہے کیونکہ تابعی مجہول ہے اور امام بیہقی نے غالباً اسی وجہ سے اسے مرسل کہا ہے(المعرفۃ) ۔ لہٰذا جب یہ سند ہی صحیح نہیں تواس سے استدلال چہ معنی دارد؟ اوراگر اسے صحیح بھی قرار دیا جائے اور شیخ انصار سے مراد صحابی بھی لیا جائے تو پھر بھی یہاں إلا ان تدرکوا الرکعۃ کے الفاظ ہیں۔ رکوع کے نہیں ۔ یہاں بلادلیل رکوع مراد لینا سینہ زوری ہے۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی غلط ترجمانی راقم نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بارے میں حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے نقل کیا تھا کہ اس میں ذکر نہیں کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت نہیں پڑھی۔المحلی:۲؍۲۴۴ (توضیح: ج ۲ ص