کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 188
ویکرہ ان یکبر خلف الصف ثم یلحق بہ۔ (عالمگیری: ج ۱ ص ۱۰۸) ’’صف کے پیچھے تکبیر کہنا ، پھر صف میں ملنا مکروہ ہے ‘‘بلکہ اگر دو صفوں کی مقدار برابر چلا جائے تو نماز فاسد ۔ چنانچہ عالمگیری میں ہے: ولو کان مقدار صفین ان مشی دفعۃ واحدۃ فسدت صلا تہ ۔(عالمگیری: ج ۱ ص ۱۰۳) ان آثار کے مقابلہ میں یہ ہے حنفی مسلک، اور اسی بنا پر جناب ڈیروی صاحب نے امام بیہقی رحمہ اللہ کے ابتدائی الفاظ ’’من رکع دون الصف‘‘ کہ جو صف سے پہلے رکوع کرتا ہے کو حذف کر دیا تاکہ اپنے مسلک پر آنچ نہ آئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہ کی حدیث اور آثار لا کر جہاں امام بیہقی رحمہ اللہ نے مدرک رکوع کی رکعت کا ثبوت دیا ہے وہاں صف میں شامل ہونے سے پہلے رکوع کرکے رکوع کی حالت میں چل کر صف میں شامل ہونے کا بھی ثبوت دیا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ان آثار کا نصف حصہ تو قبول کیا جائے اور نصف کو محض مسلک کی مخالفت میں نظر انداز کر دیا جائے۔ ممکن ہے کوئی صاحب اس حوالے سے علامہ طحاوی رحمہ اللہ کی پیروی میں یہ فرمائیں کہ صف میں ملنے سے پہلے رکوع میں جانے کی ممانعت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اذا اتی احدکم الصلٰوۃ فلا یرکع دون الصف حتی یأخذ مکانہ من الصف‘‘ (طحاوی : ج ۱ ص ۲۷۱) کہ جب کوئی تم میں سے نماز کے لیے آئے تو صف سے پہلے وہ رکوع نہ کرے تاآنکہ وہ صف میں اپنی جگہ لے ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری (ج ۲ ص ۲۶۹) میں اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ حالانکہ اس کی سند میں ابن عجلان رحمہ اللہ مدلس ہے اور روایت معنعن ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے اور اس کا سبب عمر رحمہ اللہ بن علی کی تدلیس کو قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو الضعیفہ رقم ۹۷۷ ۔ لہٰذا جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو ان آثار کا جو جواب ڈیروی صاحب صف سے