کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 185
اور اسی سند کے بارے میں موصوف فرماتے ہیں :’’ رجالہ کلھم ثقات‘‘ کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ پھرا س کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اشعث کے بارے میں لکھتے ہیں:
اشعث ھو ابن سوار الکندی من رجال مسلم و ثقۃ ابن معین فی روایۃ وقال البزار لا نعلم احداً ترک حدیثہ الا من ھو قلیل المعرفۃ۔ (اعلاء السنن : ج ۴ ص ۴۵)
اشعث رحمہ اللہ ، وہ ابن سوار کندی ہیں جو صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ایک روایت میں امام یحییٰ ابن معین رحمہ اللہ نے انھیں ثقہ کہا ہے اور امام بزار رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس کی حدیث ترک کی ہو الا یہ کہ وہ علم حدیث میں کم معرفت رکھتا ہو۔‘‘ ہم اس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھتے صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ اگریہاں اشعث رحمہ اللہ ثقہ ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس اثر کو بیان کرنے میں ہی ضعیف کیوں ہے؟ پھر ہم نے تواشعث رحمہ اللہ کی روایت تائیداً ذکر کی ہے مگر علمائے احناف تواسے ثقہ اوراس کی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔فاعتبروا یأولی الأبصار۔!
اڑسٹھواں دھوکا
رکوع کی رکعت
رکوع کی رکعت کے حوالے سے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے بارے میں مولانا صفدر صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر رکوع کی رکعت نہیں تو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس قدر کوشش کرنے کی کیا ضرورت تھی،جس کے جواب میں عرض کیا تھا کہ حکم ہی یہ ہے کہ امام کو جس حالت میں پاؤ امام سے مل جاؤ۔ ملخصاً (توضیح : ج ۲ ص ۴۴۳) ، جس کے متعلق جناب ڈیروی صاحب فرماتے ہیں یہ سطحی بات ہے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا تھا کہ مجھے خوف ہو گیا تھا کہ میری رکعت فوت ہو جائے گی تو میں نے چلنے میں جلدی کی : ان تفوتنی رکعۃ معک فاسرعت المشی۔ جزء القراء ۃ ص ۲۲ (ایک نظر: ص ۲۷۹)
بلاشبہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہ کا یہی جذبہ کارفرماتھا مگر آپ نے وضاحت فرما دی:’’ زادک