کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 176
یحدث عن محمد بن ابی عائشۃ کی روایت کے آخر میں ہے: قال خالد و حدثنی بعد و لم یقل ان شاء فقلت لابی قلابۃ ان شاء قال لا أذکرہ خالد رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے ابوقلابہ رحمہ اللہ نے بعد میں یہ حدیث بیان کی تو ان شاء یعنی اگر چاہے تو پڑھ لے کا جملہ نہیں کہا تو میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے کہا کہ’’ ان شاء‘‘ ابوقلابہ رحمہ اللہ نے کہا مجھے یاد نہیں۔ یہ روایت بھی شعبہ رحمہ اللہ کے طریق سے مروی ہے جو صحیح روایت بیان کرتے ہیں۔ملخصاً (ایک نظر : ص ۲۶۴)
حالانکہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے بنحو من حدیث ہشیم ہشیم کی حدیث کی طرح فرمایا ہے۔ اس سے یہ قطعاً لازم نہیں آتا کہ اس کے الفاظ بھی بعینہٖ ہشیم رحمہ اللہ کی روایت کے ہیں کیونکہ ’’نحو‘‘ میں معناً روایت مراد ہوتی ہے ۔ امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حدیث کے طالب علم پر ’’ مثلہ‘‘اور ’’ نحوہ‘‘ میں فرق کرنا لازم ہے۔کیونکہ ’’ مثلہ‘‘ کا استعمال جائز نہیں الا یہ کہ ان دونوں کے الفاظ ایک ہوں ۔اور’’ نحوہ‘‘ استعمال تب جائز ہے جب معنوی اعتبار سے اس کی مانند ہو۔ (ابن الصلاح : ص ۲۰۸) لہٰذا اس میں معنوی موافقت ہے،الفاظ میں نہیں، جیسا کہ ڈیروی صاحب نے ناخواندہ حضرات کو دھوکا میں مبتلا کیا اور پھر فرمایا’’ یہ پھر شاذ کیسے ہوئی۔‘‘مزید غور کیجیے امام ابن ابی شیبہ جسے بنحومن حدیث ہشیم کہہ رہے ہیں۔ وہ روایت سفیان کے واسطہ سے ہے۔ اور سفیان کی روایت کتاب القراء ۃ (ص ۵۱) ، عبدالرزاق (ج ۲ ص ۱۲۷) ، مسند احمد (ج ۴ ص ۴۲۳) ، السنن الکبریٰ للبیہقی (ج ۲ ص ۱۶۶) ، المعرفۃ (ج ۲ ص ۵۴) میں دیکھی جا سکتی ہے مگر جب دھوکا ہی دینا مقصود ہو تو حقائق سے آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔ جیسا کہ یہاں ڈیروی صاحب اس سے بے نیاز ہو کر بات بنا رہے ہیں۔ رہی مسند امام احمد کی روایت تو اولاً اس کے متن میں ’’ان شاء ‘‘کا بالکل ہی ذکر نہیں۔ ابوقلابہ رحمہ اللہ نے کسی وقت سہواً یہ لفظ کہا مگر پھراسے صحیح نہ سمجھتے ہوئے تر ک کر دیا۔ اس کے بارے میں جب ان سے سوال کیا گیا تو صاف صاف فرمایا دیا کہ مجھے یاد نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ متداول کتب میں ابوقلابہ رحمہ اللہ کی کسی روایت میں بھی اس کا ذکر نہیں۔ مگر جب بات کو بتنگڑ بنانا اور دھوکا دینا مقصود ہو تو ایسی باتیں کہنے میں انسان کوئی عار