کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 175
حسن نہیں بلکہ ضعیف ہے تو انھیں عبیدالله بن عمرو وغیرہ کے مقابلے میں ذکر کرکے مضطرب کہنا کہاں کا انصاف ہے ؟ رہا اختلاف وصل و ارسال کا تو مولانا صفدر صاحب فرماتے ہیں: ’’ایسی صورت میں موصول کو ترجیح ہوگی اور حدیث کو متصل ہی سمجھا جائے گا۔‘‘ (احسن : ۱؍۲۲۷) امام ابوحاتم رحمہ اللہ اور امام بخاری رحمہ اللہ اگرچہ اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح نہیں کہتے مگر کتاب القراء ۃ میں امام بیہقی رحمہ اللہ اور ابن حبان رحمہ اللہ اسے بھی محفوظ ہی قرار دیتے ہیں۔ اگرامام ابوحاتم رحمہ اللہ کے قول کو تسلیم کیا جائے تب بھی محمد رحمہ اللہ بن ابی عائشہ کے طریق سے یہ روایت صحیح ہے جیساکہ پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ لہٰذا خطیب رحمہ اللہ بغدادی کے اختلاف ذکرکرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ روایت مضطرب یا ضعیف ہے۔ چوسٹھواں دھوکا ابوقلابہ کی روایت میں ’’ان شاء ‘‘ کا اضافہ محدث مبارک پوری رحمہ اللہ نے ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے یہی روایت مرسلا نقل کی جس کے الفاظ ہیں:’’ ان کنتم لا بد فاعلین فلیقرأ احدکم فاتحۃ الکتاب‘‘ اور فرمایا اس روایت میں یہ الفاظ شاذ اور غیر محفوظ ہیں کیونکہ قراء ت فاتحہ خلف الامام کے بارے میں جس قدر روایات صحیحہ وارد ہوئی ہیں ان میں سے کسی میں یہ زیادت نہیں ہے اور خود ابوقلابہ رحمہ اللہ سے جو مرفوع روایتیں آئی ہیں ان میں بھی یہ زیادت نہیں ہے۔ تحقیق الکلام (ج ۱ ص ۷۴)۔ ڈیروی صاحب اس کے متعلق لکھتے ہیں: ابن ابی شیبہ (ج ۱ ص ۳۲۸) میں ھشیم قال انا خالد عن ابی قلابۃ کی اس روایت کے متصل بعد ہے۔ حدثناوکیع قال حدثنا سفیان عن خالد عن ابی قلابۃ عن محمدبن ابی عائشۃ عن رجل من اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم عن النبی بنحو من حدیث ہشیم۔ اس متصل حدیث کے الفاظ بھی ہشیم رحمہ اللہ کی حدیث کی طرح ہیں تو پھر شاذ کیسے ہوئی۔ اس کے علاوہ مسند احمد (ج ۵ ص ۸۱) میں شعبۃ عن خالد قال سمعت اباقلابۃ