کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 171
میں تشریف لے گئے اور یہ بھی خالد رحمہ اللہ کے حافظہ کی خرابی کی دلیل ہے۔‘‘ یہ بھی صحیح نہیں۔ کاش ! جناب ڈیروی صاحب حضرت سہارنپوری رحمہ اللہ کا حاشیہ بخاری ہی دیکھ لیتے ۔ چنانچہ موصوف علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین جانے کا ارادہ رمضان میں کیا تھا۔ راوی نے اسی ارادہ کو خروج سے تعبیر کیا ہے۔اور ایسا کلام میں شائع و ذائع ہے۔ وھذا شائع وذائع فی الکلام اب عرب محاورات سے بے خبر ہی اسے خالد رحمہ اللہ کے حافظہ کی خرابی کا باعث سمجھے گا، ورنہ امام بخاری رحمہ اللہ اور صحیح بخاری کے شارحین نے تو یہ نہیں سمجھا۔
اس کے برعکس امام احمد رحمہ اللہ اسے ’’ ثبت‘‘ کہتے ہیں امام ابن معین رحمہ اللہ ،نسائی رحمہ اللہ ، ابن سعد رحمہ اللہ ، العجلی رحمہ اللہ اسے ثقہ کہتے ہیں۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ انھیں ’’ الامام الحافظ الثقۃ احد الاعلام ‘‘ کے بلند القاب سے یاد کرتے ہیں (السیر: ج ۶ ص ۱۹۰) اور انھیں ہشام بن عروہ سے کم تر نہیں سمجھتے (تہذیب ۔ میزان) اس لیے جنا ب ڈیروی صاحب کا خالد الحذاء کو ’’ضعیف‘‘ قرار دینا سراسر دھاندلی اور دھوکا ہے۔ بلاشبہ ایوب سختیانی، خالد الحذاء سے زیادہ ثقہ ہیں لیکن اس روایت میں خالد کی روایت کو ایوب کے مقابلہ میں شاذ قرار دینا صحیح نہیں، کیونکہ خالد رحمہ اللہ نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے سوال کیا ہے کہ آپ نے یہ روایت کسی سے سنی ہے ؟ توانھوں نے فرمایا محمد بن ابی عائشہ سے۔ اس سے تو خالد کے ثبت اور پختگی کا پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے باقاعدہ ابوقلابہ سے استفسار کے بعد ہی اسے متصل بیان کیا ہے جیساکہ پہلے گزر چکا ہے۔ لہٰذا اسے شاذ کہنا بھی حقیقت سے بے خبری پر مبنی ہے۔
علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی حقیقت
جنا ب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں : علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی محمد رحمہ اللہ بن ابی عائشہ کی روایت کی تردید کی ہے۔ کہ اے پر حدیث محمد بن ابی عائشہ کی پس اس میں ہے مگر یہ کہ تم میں سے کوئی ایک سورہ فاتحہ پڑھے دل میں اور معلوم ہے کہ قراء ت فی النفس جب تک زبان سے حرکت نہ کرے وہ قراء ت ہی نہیں۔(ایک نظر : ص ۲۶۵ ، تمہید: ج ۱۱ ص ۴۶)
علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کیا تردید کی ؟ اسے مرسل کہا ؟ یا خالد الحذاء رحمہ اللہ کی وجہ سے ضعیف