کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 170
من اصحاب الصحیح الثقات الاثبات من غیر بیان السبب کخالد الحذاء وغیرہ‘‘(نصب الرایہ: ج ۲ ص ۴۳۹)
’’کہ ابوحاتم رحمہ اللہ کا لا یحتج بہ کہنا باعث قدح نہیں کیونکہ انھوں نے اس کا کوئی سبب ذکر نہیں کیا۔ انھوں نے یہ لفظ الصحیح کے بہت سے ثقہ ثبت راویوں کے بارے میں کسی سبب کو ذکر کیے بغیر کہا ہے جیسے خالدا لحذاء وغیرہ میں ۔‘‘ لہٰذا ڈیروی صاحب کا امام ابوحاتم رحمہ اللہ کے الفاظ سے خالدا لحذاء کو ضعیف کہنا بے بنیاد ہے۔ علامہ ابن رحمہ اللہ عبدالہادی کا یہ کلام ان کی تنقیح تحقیق احادیث التعلیق (ج ۲ ص ۲۹۴) میں دیکھا جا سکتا ہے۔
حماد بن زید نے خالد رحمہ اللہ کے آخری عمرمیں حافظہ کے متغیر ہونے کا حکم لگایا ہے مگر ڈیروی صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خالد رحمہ اللہ سے یہ روایت سفیان رحمہ اللہ ، شعبہ رحمہ اللہ ، یزید رحمہ اللہ بن زریع بھی کرتے ہیں ا ور یہ وہ ہیں جن کی روایات خالد رحمہ اللہ سے صحیح بخاری ومسلم میں موجود ہیں جیسا کہ التہذیب للمزی اور جمع بین رجال الصحیحین وغیرہ کتب سے عیاں ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کا اپنی صحیح میں روایت لینا بھی اس کا مؤید ہے کیونکہ الصحیح کے مقدمہ (ج ۱ ص ۹۰) میں انھوں نے تصریح کی ہے کہ مختلطین سے میں وہی روایت لوں گا جو اختلاط سے پہلے ان کے قدماء روایت کرتے ہیں یا دوسرے ثقات اس کے متابع ہوں۔لہٰذا یہاں خالد کے تغیر حفظ کا اعتراض بھی فضول ہے۔
اسماعیل بن علیہ رحمہ اللہ کا خالد رحمہ اللہ کی روایت پر متوجہ نہ ہونا اور ضعیف کہنا بھی باعث ضعف نہیں ۔ اوّلاً :تو یہ حکم بلا سبب ہے۔ ثانیاً :خود اسماعیل رحمہ اللہ بن علیہ یہ روایت خالد رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں۔ ثالثاً: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا کہ جن حضرات نے کلام کیا ہے اس کا سبب تغیر حفظ ہے یا حاکم کے ہاں ان کی ملازمت ہے۔ (تہذیب : ج ۳ ص ۱۲۲) اور ہم ثابت کرآئے ہیں کہ یزید بن زریع وغیرہ نے اس سے قبل از اختلاط سنا ہے جیسا کہ صحیحین کی روایات سے معلو م ہوتا ہے ۔
اسی طرح صحیح بخاری (ج ۲ ص ۶۱۳) کے حوالے سے یہ کہنا کہ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حنین شوال میں تشریف لے گئے تھے جب کہ خالد الحذاء رحمہ اللہ کی روایت میں ہے آپ رمضان