کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 17
لکھا گیا کہ اثری صاحب نے السیر کی جلد ۳ لکھی ہے حالانکہ ج ۷ ہے۔ ایک جگہ مصنف ابن ابی شیبہ کی سند دی گئی صفحہ بھی اسی کا مگر حوالہ میں مصنف عبدالرزاق کانام لکھ دیا گیا۔ ہر قاری سمجھ سکتا ہے کہ حوالے میں عبدالرزاق کا نام غلط لکھا گیا ہے مگر شیخ الحدیث صاحب کی زبان دیکھیے۔ لکھتے ہیں:’’ سند ابن ابی شیبہ کی پیش کی ہے اور حوالہ مصنف عبدالرزاق کا پیش کیا ہے۔کسی نے ایسے موقع پر کہا ہے:’’بول میاں مٹھو چبل چبل‘‘ (ایک نظر :ص ۱۶۳)
حالانکہ خود ان کی اسی کتاب میں ایسی بیسیوں غلطیاں موجود ہیں۔ امام قتادہ، بلکہ مولانا فقیر الله صاحب پر ’’ ؓ ‘‘ کی علامت لگا دی گئی۔ (ایک نظر :ص ۱۳۳،۲۱۴) کیا کہا جائے گا کہ ڈیروی صاحب نے انھیں صحابی بنا دیا ہے کہ ان پر ’’ ؓ ‘‘ کی علامت لگا رہے ہیں ۔ بلکہ اس ناکارہ کے نام کے ساتھ بھی ’’ رضی اللہ عنہ ‘‘ کی علامت لگا دی گئی ۔(ایک نظر: ص ۶۱)اسی طرح نعوذ بالله کی بجائے ’’نسود بالله‘‘ (ص ۱۳۵) ابن عدی کو ’’ابن ابی عدی‘‘ (ص ۲۹۳) متروک کو ’’مشروک‘‘ (ص ۱۷) محمد بن زرارہ کو ’’عمرو بن زرارہ‘‘ (ص ۲۷۶) امام دحیم کو ’’رحیم‘‘ (ص ۱۴۸) امام ابوحنیفہ کو ’’امام ابوحنفیہ‘‘ (ص ۱۰) لکھا گیا ہے۔ اس نوعیت کی کتابت اور پروف میں غلطیوں پر توتکار تو ہمارے نزدیک بچگانہ حرکت ہے۔
اسی طرح کتابت میں اگر کوئی لفظ رہ گیا ہے یا قرآن پاک کی آیت لکھتے ہوئے ’’واؤ‘‘ رہ گیا ہے یا ’’ف‘‘ یا ہمزہ رہ گیا ہے تواسے بھی ڈیروی صاحب نے تحریف قرآن کا نام دے دیا۔ توضیح (۲؍۲۰۱) میں اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِیْنَ لکھا گیا ، بلاشبہ آیت یوں نہیں بلکہ ﴿اِنْ ھُوَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْعَالَمِیْنَ﴾ ہے اور ایک آیت میں چونکہ ﴿ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذَّاکِرِیْنَ ﴾ ہے۔ اس لیے آیت میں لِلْعَالَمِیْنَ کی بجائے لِلذَّاکِرِیْن سہواً لکھ دیا گیا۔ پھر جس بحث کے ضمن میں یہ آیت آتی ہے یہ ساری بحث امام الکلام مع غیث الغمام (ص ۱۴۶،۱۴۷) کے حوالے سے منقول ہے اور یہ آیت بھی امام الکلام میں اسی طرح غلط طور پر لکھی ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ مولانا لکھنوی نے یہ دونوں آیات یکے بعد دیگرے لکھی ہوں اور کاتب کی نظر ’’ذکریٰ‘‘ کے بعد دوسری آیت پر پڑ گئی ہو اور یوں لِلْعَالَمِیْنَ کی جگہ لِلذَّاکِرِیْن لکھ دیا گیا ۔ اس اصل حقیقت سے صرف نظر کرتے ہوئے