کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 169
ہیں۔ امام ابن خزیمہ نے بھی اسی سند سے مقتدی کے لیے وجوب فاتحہ پر استدلال کیا ہے ( کتاب القراء ۃ: ص ۵۲) جب کہ امام ابن حبان اور بیہقی رحمہ اللہ توا سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی محفوظ کہتے ہیں اور مولانا صفدر صاحب لکھتے ہیں :’’ثقہ کی زیادت متن اور سند دونوں میں بالاجماع حجت ہے‘‘ (احسن : ج۱ ص ۲۸۳) نیز دیکھیے ج ۱ ص ۱۹۴، ج ۲ ص ۳۰ ،وصل و ارسال کی صورت میں یہاں موصول کو ترجیح اور زیادتی ثقہ کے ’’اجماعی اصول‘‘ کو معلوم نہیں نظر انداز کیوں کیا جاتا ہے؟ خالد بن مہران الحذاء جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں :’’خالد کی روایت متصل ہے اور یہ راوی ضعیف اور متغیر الحافظہ ہے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۶۶) خالد ضعیف کیوں ہے ؟ خود انھوں نے لکھا کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے فرمایا: یکتب حدیثہ ولا یحتج بہاس کی حدیث لکھی جائے اور حجت نہ پکڑی جائے۔ امام ابن علیہ کو ایک حدیث کے بارے میں جس کو خالد رحمہ اللہ روایت کرتا ہے توابن علیہ نے اس کی طرف توجہ نہ دی،اور خالد رحمہ اللہ کو ضعیف قرار دیا ۔ خالد رحمہ اللہ کے حافظہ خراب ہونے کی ایک اور دلیل بخاری (ج ۲ ص ۶۱۳) میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین کی طرف رمضان میں نکلے حالانکہ بالاتفاق شوال میں نکلے تھے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۶۶) خالد رحمہ اللہ الحذاء پر امام شعبہ رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی ڈیروی صاحب نے جرح نقل کی ہے جس کی پوزیشن ہم پہلے واضح کر آئے ہیں۔ امام ابوحاتم کی جرح لا یحتج بہ کا حکم امام ابوحاتم رحمہ اللہ کا کلام کہ اس کی حدیث لکھی جائے حجت نہ پکڑ ی جائے تواس کے بارے میں علامہ زیلعی رحمہ اللہ حنفی نے علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ کی ’’التنقیح‘‘ کے حوالے سے لکھا ہے: ’’ قول ابی حاتم لا یحتج بہ غیر قادح ایضًا فانہ لم یذکر السبب و قد تکررت ھذہ اللفظۃ منہ فی رجال کثیرین