کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 168
عن ابی قلابۃ عن محمد بن ابی عائشۃ عن رجل من اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم کی سند سے روایت کرتے ہیں۔(العلل : ج ۲ ص ۱۷۵) جس سے یہ بات بالکل نمایاں ہو جاتی ہے کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بجائے محمد بن ابی عائشہ عن رجل من اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم کی سند سے درست قرار دیتے ہیں۔ اسے مرسل نہیں کہتے۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر (ج ۱ ص ۲۰۷) میں پہلے اسماعیل عن ایوب عن ابی قلابۃ کی سند سے مرسل نقل کیا۔ اس کے بعد اسماعیل سے خالد کا یہ قول نقل کیا کہ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی ہے توانھوں نے فرمایا: محمد بن ابی عائشۃ نے، پھر انھوں نے حماد عن ایوب عن ابی قلابۃسے مرسلاً اور عبیداللّٰه بن عمرو عن ایوب عن ابی قلابۃ عن انس سے متصلاً روایت کیا اور فرمایا ولا یصح عن انس کہ یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اسلوب اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بھی اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بجائے محمد رحمہ اللہ بن ابی عائشہ کی سند سے صحیح سمجھتے ہیں، کیونکہ خالد الحذاء نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے اس بارے میں باقاعدہ سوال کیا کہ آپ جو اسے مرسل بیان کرتے ہیں توآپ نے یہ روایت کس سے سنی ہے توابوقلابہ رحمہ اللہ نے فرمایا: محمد رحمہ اللہ بن ابی عائشہ سے۔ یہی قول امام احمد رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔(العلل ومعرفۃ الرجال : ج ۱ ص ۴۱۷) اس میں تو خالد کی روایت کا تثبت ثابت ہوتا ہے چہ جائیکہ کہ اسے ضعیف یا شاذ قرار دیا جائے اور محمد رحمہ اللہ بن ابی عائشہ کی یہ روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے جزء القراء ۃ (ص ۹) میں ’’ عمن شھد ذاک‘‘ اس راوی سے روایت کی جو اس واقعہ میں موجود تھے۔ لہٰذا یہ متصل ہے مرسل نہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے مرسل کہا ہے قطعاً درست نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا تہذیب السنن (ج ۱ ص ۳۹۳) میں تاریخ بخاری سے اسے مرسلاً نقل کرکے معلول قرار دینا اور خود تاریخ میں اس کے بعد جو وضاحت ہے اسے نظر انداز کر دینا قرین انصاف نہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحاتم رحمہ اللہ اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ محمد بن ابی عائشۃ عن رجل من اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم کی سند سے صحیح سمجھتے