کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 167
معتبر ہے تو اس سے پہلے جملہ میں جب ابن رحمہ اللہ اسحاق اور حجاج رحمہ اللہ بن ارطاۃکی توثیق ہے وہ مردود کیوں ہے؟ اوراسے کس مصلحت کے لیے انھوں نے حذف کیا ہے۔ ع
ادھر لا ہاتھ ، مٹھی کھول ، یہ چوری یہیں نکلی
مزید لطف کی بات یہ ہے کہ خود ڈیروی صاحب نے ابن رحمہ اللہ اسحاق پر جرح کے ضمن میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی السیر (ج ۶ ص ۱۹۱) کے حوالہ سے امام شعبہ کے اس قول کی تردید کی ہے۔ چنانچہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے الفاظ کا ترجمہ ڈیروی صاحب نے یوں کیا ہے ’’یہ اجتہاد شعبہ رحمہ اللہ کا مردود ہے جس کی طرف التفات نہ کیا جائے بلکہ خالد الحذاء و ہشام بن سعد سے صحیحین میں حجت پکڑی گئی ہے اور یہ دونوں حجاج بن ارطاۃ اور ابن اسحاق سے بہت ثقہ ہیں بلکہ حجاج اور ابن اسحاق تو ماشاء الله ظاہر ہیں لیکن متروک نہیں ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۹۱)
لہٰذا جب خود ڈیروی صاحب نے علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے حوالے اس کی تردید کر دی اور خالد کو صحیحین کا راوی قرار دیا ہے تو یہاں یہ کلام خالد رحمہ اللہ الحذاء کی دشمنی میں ادھورا نقل کرنا کہاں کی دیانت و شرافت ہے؟ بالخصوص جبکہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’خالد ضعیف ا ور متغیر الحافظہ ہے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۶۶)
تریسٹھواں دھوکا
کیا ابوقلابہ کی روایت مرسل ہے؟
مولانا ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:’’امام دارقطنی رحمہ اللہ ، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ، امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا اس کو مرسل روایت کرنا ہی صحیح ہے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۶۶)
بلاشبہ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے العلل میں اس روایت کو مرسل قرار دیا ہے لیکن کیا امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی موقف ہے، قطعاً نہیں۔ چنانچہ امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے اس روایت کے بارے میں پوچھا جسے عبیداللّٰه بن عمرو عن ایوب عن ابی قلابۃ عن انس سے خلف الامام قراء ت کے بارے میں روایت کرتے ہیں توانھوں نے فرمایا اس میں عبیدالله کو وہم ہو اہے اور حدیث وہ ہے جسے خالد بن الحذاء