کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 165
الحاکم والذھبی علی شرط مسلم‘‘ کہ امام حاکم رحمہ اللہ اور ذہبی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ روایت شرط مسلم پر ہے۔ حالانکہ یہ روایت عکرمہ بن عمار عن ایاس کے واسطہ سے ہے۔ اندازہ کیجیے فاتحہ کی بحث میں عکرمہ ضعیف مگر عقیدہ کے بارے میں اس کی روایت شرط مسلم پر صحیح۔
انا للّٰه و انا الیہ راجعون۔!
علاوہ ازیں عکرمہ رحمہ اللہ بن عمار کی روایت جو توضیح (ص ۴۳۶ج ۱) میں کتاب القراء ۃ (ص ۵۳) وغیرہ کے حوالے سے بیان ہوئی ہے اس میں عکرمہ سے روایت کرنے والے النضر بن محمد ہیں اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ’’نضر بن محمد عن عکرمہ‘‘ سے متعدد روایات بیان کی ہیں۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم (رقم ۲۳۴،۳۴۹،۸۸۱،۱۹۳۰،۲۷۳۰،۲۸۱۵) وغیرہ جو اس بات کی دلیل ہے ۔ نضر رحمہ اللہ بن محمد نے عکرمہ رحمہ اللہ سے اس کے اختلاط سے پہلے سماع کیا ہے۔ اس اعتبار سے بھی عکرمہ رحمہ اللہ کی اس روایت پر اعتراض درست نہیں۔
اکسٹھواں دھوکا
محدث مبارکپوری رحمہ اللہ کی طرف عبارت کے انتساب کی حقیقت
مولاناڈیروی صاحب لکھتے ہیں : ہمارے شیخ مکرم نے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کی تردید نہیں کی بلکہ مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ صاحب کی تردید کی ہے۔ وہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ سے رواتہ ثقات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اس لیے یہ روایت بالکل صحیح ہے۔ (تحقیق الکلام : ج ۱ ص ۹۰، احسن : ج ۲ ص ۱۱۴) ایک نظر: ص ۲۶۲
قارئین کرام سے نہایت ادب سے التجا ہے کہ آپ تحقیق الکلام میں چھٹی حدیث کے عنوان کے تحت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ملاحظہ فرمائیں، جس کے بارے میں مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی ذکر کیا ہے’’ رجالہ ثقات‘‘ اور ترجمہ میں ان کے الفاظ ہیں: کہا ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد میں کہ سب راوی اس حدیث کے ثقہ ہیں۔‘‘ آپ خوردبین سے بھی یہ پوری بحث پڑھ جائیں اس میں کہیں آپ یہ الفاظ نہیں دیکھیں گے:’’ اس لیے یہ روایت بالکل صحیح ہے۔‘‘ لہٰذا جب مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہی نہیں