کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 163
بلکہ حنفی علماء نے بھی اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے(توضیح : ج ۱ ص ۴۳۶،۴۳۸) ۔ ہمارے اس موقف کا کوئی دفاع تو ڈیروی صاحب نہ کر سکے ،البتہ یہ فرمایا کہ اثری صاحب لکھتے ہیں: ’’ اسحا ق بن احمد رحمہ اللہ بھی اسے ثقہ کہتے ہیں۔ حالانکہ اس کے آخر میں تھا ’’ وکان کثیر الغلط ینفرد عن ایاس باشیاء‘‘ بہت غلطی کرنے والا تھا۔ ایاس راوی سے کئی چیزوں کے ساتھ منفرد ہے اس کو اثری صاحب نے چھوڑ دیا۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۶۰) بلاریب تہذیب(ج ۷ ص ۲۶۳) میں یہ الفاظ موجود ہیں مگر غور کیجیے کہ اس کے باوجود اسحاق بن احمد رحمہ اللہ نے عکرمہ رحمہ اللہ کو ثقہ ہی کہا ہے اور ان کے نزدیک یہ الفاظ نہ اس کے ضعف کا باعث ہیں ، نہ ہی ثقہ کہنے کے منافی ہیں۔ اب جہاں ثقات کی مخالفت میں ان سے غلطی ہوئی تووہ روایت شاذ اور ضعیف ہوگی ورنہ اس کی روایت حسن یا صحیح ہوگی۔ اسی حقیقت کے پیش نظر راقم نے یہ آخری الفاظ نظر انداز کر دیے مگر یہ بھی دیکھیے کہ تہذیب میں جو یہ لکھا ہوا ہے کہ وہ بہت غلطی کرنے والا تھا ۔ ایاس راوی سے کئی چیزوں کے ساتھ منفرد ہے۔‘‘ یہی الفاظ علامہ المزی رحمہ اللہ نے بھی التہذیب (ج ۱۳ ص ۱۶۳) میں ذکر کیے ہیں۔مگر السیر (ص ۱۳۷ ج ۷) میں ’’ایاس‘‘ کی بجائے ’’اناس‘‘ ہے لیکن یہ محل نظر ہے کیونکہ تاریخ بغداد (ص ۲۵۹،۲۶۰ ج ۱۲) میں صراحت ہے’’ایاس یعنی ابن مسلمہ بن الاکوع‘‘ اس لیے صحیح تو ایاس ہی معلوم ہوتا ہے۔ اولاً تو کسی راوی سے محض تفرد باعث ضعف نہیں، ثانیاً امام احمد رحمہ اللہ اس کے برعکس فرماتے ہیں۔ حدیثہ عن ایاس بن سلمۃ صالحۃ کہ اس کی ایاس سے روایات درست ہیں۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ ’’ عن یحي بن ابی کثیر مضطربۃ ضعاف لیست بصحاح و لکنہ اتقن حدیث ایاس بن سلمۃ ‘‘ کہ اس کی یحییٰ بن ابی کثیر رحمہ اللہ سے روایات مضطرب ضعیف ہیں، صحیح نہیں۔ لیکن اس کی حدیث ایاس رحمہ اللہ سے پختہ اور مضبوط ہے(تہذیب ص ۲۶۱، العقیلی : ج ۳ ص ۳۷۸)۔ بلکہ امام مسلم رحمہ اللہ نے عکرمہ عن ایاس بن سلمہ کے طریق سے متعدد احادیث الصحیح میں روایت کی ہیں جیسا کہ تحفۃ الاشراف (ص ۳۸،۴۱ ج ۴) سے عیاں ہوتا ہے لہٰذا جب امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک ایاس رحمہ اللہ کی روایات میں تفرد کے باوجود عکرمہ پختہ اور اس کی روایات صالح ہوئیں ،امام مسلم رحمہ اللہ بھی الصحیح میں اس کی روایات ذکر کریں توان