کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 162
راست یحییٰ رحمہ اللہ سے ہے ، درمیان میں کوئی واسطہ نہیں کہ اسے بلادلیل معلق قرار دیا جائے۔ تاہم دوسرے ایڈیشن میں ہم نے حدثنا کو حذف کر دیا ہے۔ جس طرح لیث بن سعد سے یحییٰ بن بکیر روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح عبدالله بن صالح بھی لیث سے روایت کرتے ہیں۔ لہٰذاعبدالله بن صالح، یحییٰ کے متابع ہیں۔ عبدالله متفرد نہیں اور ہم نے لکھا ہے کہ ’’راجح وہی بات ہے جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں اختیار کیا ہے اور ایسے راوی کی روایت بشرطیکہ ثقات کے مخالف نہ ہو حسن درجہ کی ہے۔‘‘ (توضیح : ج ۲ ص ۵۴) یہ الفاظ ڈیروی صاحب نے بھی نقل کیے ہیں، یہاں تو عبدالله بن صالح منفرد نہیں ۔ اس لیے ڈیروی صاحب کا عبدالله کے بارے میں ہماری نقل کردہ جرح کو نقل کرنا بے سود اور محض ضد کا نتیجہ ہے۔
جناب ڈیروی صاحب کی دیانت کی یہاں بھی داد دیجیے کہ توضیح (ج ۲ ص ۵۵) میں راقم نے مقدمہ فتح الباری (ص ۴۱۴) کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عبدالله بن صالح سے روایات صحیح ہیں۔ جب حقیقت یہ ہے تو راقم کا اس سند کو بے غبار کہنا غلط کیسے ہوا؟ مگر افسوس کہ ہماری اس وضاحت کو ڈیروی صاحب شیر مادر سمجھ کر ہضم کر گئے اور اس سے بے نیاز ہو کر اس میں غبار ڈالنے کی ناکام کوشش کی جو کسی اعتبار سے درست نہیں۔
ڈیروی صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے شیخ مکرم نے احسن الکلام کے حاشیہ (ج ۱ ص ۹۸) میں عبدالله بن صالح کو ثقہ و صدوق اور صحیح بخاری کا راوی قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ادب المفرد اور جزء القراء ۃ وغیرہ میں ان سے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ اس لیے ڈیروی صاحب نے ہمارا ادھورا موقف نقل کرکے سراسر دھوکا دیا اور ان کی یہ کوشش ان کے شیخ مکرم کے موقف کے بھی برعکس ثابت ہوئی۔
ساٹھواں دھوکا
کیا عکرمہ رحمہ اللہ بن عمار ضعیف ہے؟
عکرمہ بن عمار رحمہ اللہ کے بارے میں عرض کیا تھا کہ مولانا صفدر صاحب نے اپنے پسندیدہ اصول کے برعکس عکرمہ رحمہ اللہ پر جرح کی، حالانکہ جمہور محدثین نے اسے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے،