کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 161
ثنا اللیث عن جعفر بن ربیعۃ عن عبدالرحمن بن ہرمزأن اباسعید الخدری کان یقول‘‘ کہ یہ موصول ہے اور اس کی متابعت ’’ یحیی بن بکیر قال ثنا اللیث ۔۔الخ‘‘ نے کی ہے۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاتحہ پڑھے بغیر کوئی رکوع نہ کیا جائے (جزء القراء ۃ : ص ۱۴) آپ دیکھ رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مسدد کی روایت کی متابعت میں یحییٰ بن بکیر کی روایت ذکر کی ہے اور یہ متابعت معنوی ہے کہ قتـادۃعن ابی نضرۃ کی روایت میں جو فاتحہ سے زائد قراء ت کا ذکر ہے اس میں انقطاع کے باوجود ابوسعید رضی اللہ عنہ کا فتویٰ جو موصول سند سے ہے اس کے خلاف ہے۔ مگر افسوس کہ حضرت شیخ الحدیث صاحب بڑی جرأت سے لکھتے ہیں:’’ عبدالله بن صالح جو اصل تھا اس کو متابع بنا دیا۔‘‘ حالانکہ عبدالله بن صالح کی روایت تو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے دو صفحات بعد (ص ۱۷) پر بیان کی ہے، مگر ڈیروی صاحب نے محض اپنے نفس اور اپنے حواریوں کی تسکین کے لیے عبد رحمہ اللہ الله بن صالح کی روایت کو اصل اور یحییٰ رحمہ اللہ کو اس کا متابع بنا دیا۔اگر وہ توضیح کی بجائے جزء القراء ۃ کی مراجعت کر لیتے تو دھوکا میں مبتلا کرنے کی جرأت نہ کرتے۔ نعوذ باللّٰه من شرورانفسنا۔
علاوہ ازیں ’’قتادۃ عن ابی نضرۃ ‘‘ کی روایت ان کے اس صحیح اثر کے بھی خلاف ہے۔ جس میں انھوں نے فرمایا :’’ اقرأ بأم القراٰن فی کل صلاۃ ‘‘ کہ ہر نماز میں فاتحہ پڑھو۔(الاوسط : ج ۳ ص ۱۰۰)اور یہی اثر اسی سند سے عبدالرزاق (ص ۹۳ ج ۲) میں ہے کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ ہر رکعت میں فاتحہ پڑھتے تھے۔
اسی طرح ان کا یہ فرمانا کہ ’’ وتابعہ یحي بن بکیر معلقاً تھا اس کو وقال ایضًا حدثنی یحي بن بکیر بنا دیا‘‘ حالانکہ یحییٰ بن بکیر امام بخاری رحمہ اللہ کے مشہور استاد ہیں اور صحیح بخاری رحمہ اللہ میں ان سے احادیث لائے ہیں۔جزء القراء ۃ کے اسی ص ۱۴ پر بھی ’’ حدثنا یحي بن بکیر‘‘ سے براہ راست روایت موجود ہے اوراس اثر میں انہیں مسدد کا متابع قرار دے رہے ہیں۔ جزء القراء ۃ کے مطبوعہ نسخہ میں’’ حدثنا یا قال أنا یحي بن بکیر‘‘ نہیں تاہم اپنے استاد مسد د رحمہ اللہ کی متابعت میں اسے ذکر کرنااس کا قرینہ ہے کہ یہ روایت براہ