کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 160
علاء رحمہ اللہ بن حارث ثقہ ہے لیکن وہ مختلط ہے جیساکہ پہلے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے گزرا ہے۔ تو ایسے راوی سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔‘‘ یعنی راوی ثقہ اور مختلط ہوتواس سے استدلال صحیح نہیں( گو مولانا صفدر صاحب کا اصول اس کے برعکس ہے) اور ہم بھی علاء رحمہ اللہ کی روایت سے استدلال نہیں کررہے بلکہ بطور متابعت ذکر کرتے ہیں۔ لہٰذا علاء رحمہ اللہ پر یہ اعتراض محض دھوکا کا نتیجہ ہے۔ انسٹھواں دھوکا حضرت ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ کا اثر راقم اثیم نے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کے اثر پر بحث کے دوران میں عرض کیا تھا کہ سند کے اعتبار سے اس پر کوئی غبار نہیں ۔ پھر اس کے ایک ایک راوی کی توثیق ذکر کی۔(توضیح: ج ۱ ص ۱۴۶ ، ۱۴۷) مگرڈیروی صاحب فرماتے ہیں : اس میں عبدالله بن صالح ہے جس پر خود اثریؔ صاحب نے توضیح ( ص ۵۳،۵۴ ج ۲) میں کلام کیا ہے اور عبدالله بن صالح اصل تھا۔ اس کو متابع بنا دیا۔ جزء القراء ۃ میں ’’ تابعہ یحیٰی بن بکیر‘‘ یعنی معلقاً تھا،اس کو وقال ایضًا حدثنی یحی بن بکیر بنا دیا ۔ یہ عظیم خیانت ہے۔ (ایک نظر: ص ۲۵۸،۲۵۹) مگر کوئی جناب ڈیروی صاحب سے اتنا ہی پوچھ لے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’ تابعہ یحی بن بکیر‘‘ کہا ہے تواسے انھوں نے کس کی متابعت میں ذکر کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کی روایت ’’ امرنا نبینا ان نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘ کہ ہمیں ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ہم فاتحہ اور اس سے زائد جس قدر ہو سکے پڑھیں ذکر کی اور فرمایا کہ قتادۃ رحمہ اللہ نے ابونضرۃ رحمہ اللہ سے سماع کااظہار نہیں کیا۔ اس کے بعد انھوں نے ’’ مسدد قال ثنا یحی عن العوام بن حمزۃالمازنی قال ثنا ابونضرۃ قال سألت ابا سعید الخدری کی سند سے حضرت ابوسعید کا یہ اثر ذکر کیا کہ ان سے جب قراء ت خلف الامام کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا: فاتحہ پڑھی جائے ۔ پھر انھوں نے فرمایا:’’ وھذا اوصل و تابعہ یحی بن بکیر قال