کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 159
بدعت کی بنیاد پر اعتراض ان کے نزدیک قابل ضعف نہیں تواس کو نقل نہ کرکے فقیر اثریؔ نے کوئی جرم نہیں کیا۔ جر م تو یہ ہے کہ ثقہ کے معمولی تغیر کوقابل جرح بھی نہ سمجھیں۔ اس کے باجود توثیق تو نقل نہ کریں اور تغیر حفظ کو نقل کریں۔
یاد رہے کہ یہ اصول انھوں نے ابواسحاق رحمہ اللہ پر اختلاط کے اعتراض کے جواب میں بیان فرمایا ہے جب کہ متقدمین میں سے امام ابن معین رحمہ اللہ ، ابوزرعہ رحمہ اللہ ،ابوحاتم رحمہ اللہ وغیرہ نے انھیں مختلط و متغیر قرار دیا ہے اور علاء رحمہ اللہ کو امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے متغیر قرار دیا ہے اور وہ بھی ابوعبید الآجری کی روایت میں جیسا کہ تہذیب وغیرہ میں ہے۔ حالانکہ ’’ سو الات الاٰجری عن ابی داو‘د‘‘ میں یہ قول بھی نہیں۔ مگر اس کے باوجود علاء کا حافظہ متغیر لیکن ابواسحاق رحمہ اللہ کا تغیر معمولی جو قابل جرح نہیں ،ناانصافی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ؟
مولانا ڈیروی صاحب نے اپنے حواریوں کو حوصلہ دینے کے لیے یہ حوالہ بھی دیا کہ’’علامہ البانی نے لکھا ہے کہ یہ سند ضعیف ہے کیونکہ علاء بن حارث اختلاط کا شکار ہو چکا تھا۔‘‘ (ایک نظر : ص ۲۵۷)بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ کیا علامہ البانی رحمہ اللہ نے صرف اسی بنا پر اس سند کو ضعیف کہا ہے کہ علاء رحمہ اللہ مختلط ہے ؟ قطعاً نہیں۔ ان کے مکمل الفاظ یوں ہیں:
ھذا اسناد ضعیف ، العلاء بن الحارث کان اختلط و شیخہ عبداللّٰه بن دینار ان کان ھو الحمصی المتقدم فی الحدیث (۷۱۴) فھو ضعیف و ان کان المدنی فھو ثقۃ والأول اقرب لأن العلاء دمشقی۔‘‘ (الضعیفۃ : ج ۲ ص ۱۵۲)
یہ سند ضعیف ہے، علاء مختلط ہے اوراس کا استاد عبدالله بن دینار اگر حمصی ہے جو پہلے حدیث نمبر ۷۱۴ میں ہے تو وہ ضعیف ہے اور اگر مدنی ہے تو وہ ثقہ ہے۔ اور پہلا حمصی ہونا اقرب الی الصواب ہے کیونکہ علاء دمشقی ہے۔ بتلائیے کیا صرف علاء کے اختلاط کی بنا پرہی انھوں نے سند کو ضعیف کہا؟ علاوہ ازیں علامہ البانی رحمہ اللہ ہی لکھتے ہیں:
انہ ابن الحارث الثقۃ و لکنہ کان قد اختلط کما تقدم عن الحافظ فمثلہ لا یحتج بہ ۔ا لخ (الضعیفۃ : ج ۳ ص ۶۰۳)