کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 155
امام احمد رحمہ اللہ سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ ضعیف ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے اور ابن حبان نے بھی اسے ثقات میں ذکر کیا ہے، ان کے الفاظ ہیں: ضعفہ احمد و وثقۃ ابوحاتم و ذکرہ ابن حبان فی الثقات ایضاً ۔(مجمع : ج ۲ ص ۶۶) غور فرمایا آپ نے کہ توثیق کو حضرت صفدر صاحب نے حذف کر دیا۔ اس طرح میزان کے حوالے سے امام احمد رحمہ اللہ کا قول ’’ احادیثہ مناکیر‘‘ تو انھیں نظر آگیا مگراس کے متصل بعد’’ وقال ابوحاتم صالح الحدیث‘‘ کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ وہ صالح الحدیث ہے ، نظر نہ آیا۔ پھر مولانا صفدر صاحب نے اپنا اصول یہ بتلایا ہے ’’اگر کسی ضعیف اور کمزور راوی کے بارے میں کسی امام کا کوئی توثیق کا جملہ ملا تواس کو بھی درخور اعتناء نہیں سمجھا ۔‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۳۰) اس صفدری اصول کی بنا پر انھوں نے موسیٰ بن شیبہ کو ضعیف قرار دیا اوراس کے حق میں جو توثیق تھی وہ نظر انداز کر دی۔ حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں صرف احادیثہ مناکیر کہا ہے جیسا کہ میزان، تہذیب اور دیگر سبھی کتب رجال میں ہے۔ ضعیف نہیں کہا۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اسی ’’ احادیثہ مناکیر‘‘ کوضعیف کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے انھوں نے ’’ ووثقہ ابوحاتم‘‘ کہا ہے کہ ابو حاتم نے اس کی توثیق کی ہے۔ حالانکہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے بھی صرف صالح الحدیث کہا ہے۔ جیسا کہ الجرح والتعدیل (ج ۴ ق ۱ ص ۱۴۷) اور تہذیب وغیرہ میں ہے ورنہ کہنا پڑے گا کہ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے اسے ثقہ بھی کہا ہے ۔ حالانکہ یہ خلاف واقعہ ہے اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کی یہ تعبیر صحیح نہیں۔ مزید برآں یہ کہ امام احمد نے ’’ احادیثہ مناکیر‘‘ فرمایا ہے۔ اور امام احمد رحمہ اللہ منکر کا اطلاق تفرد راوی پر بولتے ہیں جس کا اعتراف مولانا صفدر صاحب نے بھی کیا ہے۔ (احسن : ج ۱ ص ۲۳۹) ، نیزد یکھیے (الرفع والتکمیل: ص ۱۵۰)۔ لہٰذا جب امام احمد رحمہ اللہ کے یہ الفاظ راوی کے ضعیف ہونے کا باعث نہیں تو موسیٰ بن شیبہ ضعیف کیسے ہوئے؟ اس لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ’’ لین الحدیث ‘‘سے راوی کو ضعیف کہنا کہاں کا انصاف ہے؟