کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 149
ڈیروی صاحب کی ایک اورعیاری
جناب ڈیروی صاحب نے ایک نظر (ص ۲۰۰) میں نمبر۴ کے تحت تفسیر ابن کثیر (ج ۴ ص ۵۷۱) کے حوالہ سے مسند امام احمد کی ایک حدیث وکیع حدثنا سفیان عن عاصم عن زر کی سند سے نقل کی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے بارے میں پوچھاتو آپ نے فرمایا کہ مجھے کہا گیا ہے کہ تم معوذتین پڑھو تو میں بھی تجھے کہتا ہوں کہ پڑھو۔۔ الخ۔ اسی روایت کی بنا پر انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :حضرت عبدالله بن مسعود معوذتین کی قرآنیت کو تسلیم کرتے تھے اور خود پڑھا کرتے تھے جب کہ مسند احمد کے حوالے سے حدیث نمبر۴ کے تحت گزرا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود حضور علیہ السلام سے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے پڑھنے کا حکم کیا گیا ہے تو میں تمھیں پڑھنے کا حکم دیتا ہوں۔‘‘ (ایک نظر: ۲۰۱)
سابقہ تجربہ کی روشنی میں ، راقم تو اسے بھی ڈیروی صاحب کی عیاری اور دھوکا بازی ہی کہے گا کہ انھوں نے اس کے لیے صرف تفسیر ابن کثیر کے حوالے پراکتفافرمایا اور مسند احمد کی طرف مراجعت کی زحمت نہ اٹھائی۔اگر وہ ایسا کرلیتے تو یقینا وہ دعویٰ نہ کرتے جو انھوں نے کیا ہے۔
تفسیر ابن کثیر میں طباعتی غلطی
چنانچہ مسند امام احمد(ج ۵ ص ۱۲۹) میں یہ روایت اسی سند سے منقول ہے اورسألت ابن مسعود ‘‘کی بجائے ’’ سألت ابی بن کعب ‘‘ ہے ۔ گویا زربن حبیش نے حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معوذتین کے بارے میں سوال کیا تھا اور انھو ں نے فرمایا کہ اس کے متعلق میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اطراف مسند (ج ۱ ص ۱۹۰) میں بھی اسے ’’زر بن حبیش عن أبی ‘‘کی مسند ہی میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا تفسیر ابن کثیر میں حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف اس کا انتساب غلط ہے۔