کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 148
مولانا حقانی رحمہ اللہ کی یہ طویل عبارت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کو قران کا حصہ نہیں سمجھتے تھے اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے خلاف تھے۔ اور بعض علماء سے جو انھوں نے اس کی تاویل نقل کی اور فرمایا کہ ’’بات بھی اصل یہی معلوم ہوتی ہے ۔ ‘‘تو طبرانی اور زوائد مسند امام احمد کی روایت سے صاف طو رپر اس کی تردید ہوتی ہے کہ وہ فرماتے تھے یہ کتاب الله میں سے نہیں۔ ان کو لکھ کر مصحف میں اضافہ نہ کرو۔ علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے الجامع لاحکام القرآن (ج ۲۰ ص ۲۵۱) میں بھی اس تاویل کی پرزور تردید کی ہے۔
ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ بلاریب تمام صحابہ کرام سے حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف مختلف تھا ۔ وہ اسے قرآن پاک کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ اسی وجہ سے انھوں نے اپنے نسخہ مصحف میں ان کو نہیں لکھا بلکہ مصحف میں لکھی ہوئی ان سورتوں کو مٹاتے تھے جیسا کہ امام بزار رحمہ اللہ ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ، علامہ عینی رحمہ اللہ ، علامہ قسطلانی رحمہ اللہ ، علامہ سیوطی رحمہ اللہ ، علامہ خازن رحمہ اللہ ، علامہ شوکانی اور مولانا عبدالحق رحمہ اللہ نے فرمایا۔ جناب ڈیروی صاحب کا غصہ دیدنی ہے کہ وہ اس حوالے سے فقیر اثری ؔ کے بارے میں لکھتے ہیں :’’ تو بدبخت ہے، ظالم ہے، تجھے ماں نے نہ جنا ہوتا، تو نے یہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا۔‘‘ مگر دیانت داری سے سوچیں کیا یہ سب حضرات بھی اس طعن و تشنیع کے مستحق ہیں؟ ؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
ان روایات کی بناپر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں جن کا ذکر خود ڈیروی صاحب نے (ص ۱۹۹، ۲۰۴) پر کیا۔ ان کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں تفصیل سے دیا۔ پھر جب انھوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ’’اختلاف معوذتین کو لکھنے کے بارے میں تھا۔‘‘ تواس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد بتلائیے قرآن مجید متفق علیہ کتاب کیسے رہی ؟ جو جواب وہ اس کا دیں، وہی دوسرے اعتراضات کا جواب سمجھ لیں۔ بلکہ ان روایات کی بنیاد پر تحریف قرآن کے اعتراض کو تو مولانا عبدالحق رحمہ اللہ نے ’’بے فہمی ‘‘ کا اعتراض کہا۔ ہم مزید کیا عرض کریں؟