کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 146
من زعم ان المعوذتین لیستا من القراٰن ذکر فی النوازل انہ لا یکون کافراً۔ (قاضی خان : ج ۳ ص ۵۷۴ مع عالمگیری) کہ جو یہ سمجھتا ہے کہ معوذتین ، قرآن نہیں ہیں، فتاویٰ نوازل میں ہے کہ وہ کافر نہیں۔ اور فتاویٰ نوازل ص ۱۹۵ میں یہی فتویٰ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے منقول بلکہ فتاویٰ البزار یہ (ج ۶ ص ۳۴۲ مع عالمگیری) میں ہے کہ ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام ابویوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ معوذتین کے قرآن ہونے پر اجماع ہے یا نہیں۔ ہم یہاں مزید کسی تفصیل میں جانے کی بجائے صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ معوذتین کے بارے میں یہ اختلاف آخر کس بنا پر ہے؟ حتی کہ ائمہ ثلاثہ میں بھی یہ اختلاف بتلایا جاتا ہے۔ اس اختلاف کا پس منظر کیا ہے ؟ مزیدبرآں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے متعلقہ ان روایات کو صحیح قرار دیا ہے۔ (الدرالمنثور : ج ۶ ص ۴۱۶) اور یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں ۱۱۲ سورتیں تھیں (الاتقان : ج ۱ ص ۶۵)۔یہی بات ان کے حوالے سے علامہ شوکانی نے فتح القدیر(ج ۵ ص ۵۱۲) میں نقل کی ہے۔ علامہ الزرکشی رحمہ اللہ نے بھی البرھان (ج۱ ص ۲۵۱) میں یہی بات کہی ہے۔ علامہ خازن ایک روایت ذکر کرکے لکھتے ہیں: ’’ فیہ دلیل واضح علی کونھما من القراٰن و فیہ رد علی ما نسب الی ابن مسعود خلاف ھذا۔‘‘ (تفسیر خازن : ج ۴ ص ۴۲۸) اس میں واضح دلیل ہے کہ یہ دونوں سورتیں قرآن سے ہیں اور اس میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے جو اس کے خلاف منسوب ہے اس کا رد ہے۔ مزید تفصیل سے قطع نظر ہم یہاں برصغیر کے نامور حنفی مفسر ومحدث و مناظر حضرت مولانا عبدالحق دہلوی کی عبارت قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک اختلاف مشہور ہے وہ یہ کہ ان کے نزدیک یہ دونوں اخیر کی