کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 145
سے ذکر کیا ہے کہ :
’’ اول من جھر بالمعوذتین فی الصلٰوۃ المکتوبۃ ابن زیاد‘‘
’’کہ سب سے پہلے عبدالله بن زیاد نے فرض نماز میں معوذتین کو اونچی آواز سے پڑھا۔‘‘پھر لکھتے ہیں:
یعنی واللّٰه اعلم فی الکوفۃ فان ابن مسعود کان لا یکتبھما فی مصحفہ و کان فقہاء الکوفۃ عن کبراء اصحاب ابن مسعود یأخذون واللّٰه اعلم۔ (البدایۃ : ج ۸ ص ۲۸۵)
اللهتعالیٰ بہتر جا نتے ہیں ا س سے مراد کوفہ ہے (کہ کوفہ میں پہلے ایسا ابن زیاد نے کیا )کیونکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنیمصحف میں معوذتین نہیں لکھتے تھے اور فقہاء کوفہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے کبار تلامذہ سے مسائل لیتے تھے۔‘‘ امام نخعی کا یہی قول امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے المصنف کتاب الاوائل (ص ۷۴ج ۱۴) میں بھی ذکر کیا ہے جس کی سند صحیح ہے ۔لہٰذا پڑھنے سے مراد نماز میں پڑھنا دعویٰ بلا دلیل ہے۔ صحیح بخاری میں زر بن حبیش کی روایت کے ضمن میں علامہ عینی نے لکھا ہے :
ھذا کان مما اختلف فیہ الصحابۃ ثم ارتفع الخلاف و وقع الاجماع علیہ فلو انکر الیوم احد قرآ نیتھما کفر۔ (عمدۃ القاری :ج ۲۰ ص ۱۱)
’’معوذتین کے قرآن ہونے میں صحابہ کے مابین اختلاف تھا۔ پھر یہ اختلاف ختم ہو گیا اور ان کے قرآن ہونے پر اجماع ہو گیا۔ آج اگر کوئی ان کی قرآنیت کا انکار کرے گا تو کافر ہوگا۔‘‘ یہی بات علامہ قسطلانی رحمہ اللہ نے ارشادالساری (ج ۷ ص ۳۵۳) میں کہی ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین اختلاف سے مراد صرف حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ جیسا کہ امام بزار رحمہ اللہ اور علامہ عینی رحمہ اللہ کے حوالہ سے ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بجافرمایا کہ معوذتین کا اب منکر کافر ہے مگر فتاویٰ قاضی خاں میں ہے: