کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 144
۲۰۰، ۲۰۱)۔ اس غلط فہمی کا ازالہ تو ہم پہلے کر چکے ہیں کہ ’’ لیستا من کتاب اللہ‘‘ کے الفاظ سے روایت صحیح سند سے ثابت ہے۔ الاعمش اور ابواسحاق کی تدلیس وغیرہ کی بنیاد پر اعتراض سراسر دھوکا پر مبنی ہے۔ تعجب ہے کہ وہ خود لکھتے ہیں:’’ اختلاف معوذتین کے لکھنے کے بارے میں تھا پڑھنے کے بارے میں نہیں۔‘‘ جب مصحف میں معوذتین کے لکھنے یا نہ لکھنے میں اختلاف کو وہ تسلیم کرتے ہیں اور مسند احمد وغیرہ سے یہ نقل بھی کرتے ہیں کہ وہ مصحف میں معوذتین نہیں لکھتے تھے(ایک نظر ص ۲۰۱) تو مصحف پاک میں نہ لکھنے بلکہ لکھی ہوئی معوذتین کو مصحف سے مٹانے کا باعث کیا تھا؟
بس اک نگاہ پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
اگر معوذتین کی قرآنیت کو تسلیم کرتے تھے تواس کو مصحف سے مٹاتے کیوں تھے؟قاضی عیاض وغیرہ نے جو اس کا جواب دیا ہے کہ وہ بلااجازت مصحف میں کسی سورت کو لکھنا صحیح نہیں سمجھتے تھے اور انھیں اس کی اجازت نہیں ملی۔ مگر زوائدمسند احمداور طبرانی کی روایت سے اس تاویل کی گنجائش نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے کہا ہے:
اسی طرح ڈیروی صاحب کا کہنا کہ’’ حضرت عبد رضی اللہ عنہ الله بن مسعود خود پڑھا بھی کرتے تھے بلاشبہ وہ پڑھتے تھے۔ لیکن تعوذ کے لیے ، نماز میں نہیں۔ خود ان کا فرمان ہے۔‘‘ انما امر النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ان یتعوذ بھما ‘‘(زوائد : ۳۸۶، طبرانی :۹ ۲۶۸)اسی لیے توامام بزارنے فرمایا ہے:
ھذا لم یتابع عبداللّٰه علیہ احد من الصحابۃ و قد صح عن النبی صلي اللّٰه عليه وسلم انہ قرأ بھما فی الصلٰوۃ واثبتتا فی المصحف۔
(زوائد البزار : ۳۸۶)
کہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کے اس موقف کی کسی صحابی نے بھی متابعت نہیں کی اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے صحیح طو رپر ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں اور انھیں مصحف میں رکھا ۔ علامہ عینی نے عمدۃ القاری (ج ۲۰ ص ۱۱) میں امام بزار رحمہ اللہ کا یہی کلام نقل کرکے گویا اس کی تائید کی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی رحمہ اللہ