کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 143
تیسرا اعتراض اوراس کا جواب
ڈیروی صاحب نے نور الصباح (ص ۱۴۰) میں تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ ’’مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ غیر مقلد ابکار المنن (ص ۱۶۹) میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم کی علقمہ سے ملاقات ثابت نہیں۔‘‘ حالانکہ خود ڈیروی صاحب نے ایک نظر ص ۱۹۶، ۱۹۷ میں اس موقف کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ابراہیم رحمہ اللہ کا سماع حضرت علقمہ رحمہ اللہ سے یقینا ثابت ہے ۔ صحیح بخاری ومسلم کی یہ مرکزی سند ہے۔اب ہم انہی کی زبان میں صرف نام کی تبدیلی کے ساتھ عرض کرتے ہیں :’’ مبارک پوری رحمہ اللہ صاحب کی بات آپ اس روایت میں تو نہیں مانتے جو آپ کے خلاف ہو جب موافق ہو تو مبارک پوری صاحب کی بات مانتے ہوتمھیں شرم و حیا کرنا چاہیے اور پانی میں ڈوب مرنا چاہیے۔ بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن ‘‘ (ایک نظر: ص ۲۲۲)
ہے یہ گنبد کی صدا جیسی کہے ویسے سنے
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حسان رحمہ اللہ بن ابراہیم کی یہ روایت بھی سنداً حسن درجہ سے کم نہیں۔ یہی روایت طبرانی اور مسند بزار میں ہے اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا ہے : ’’ رجالھما ثقات‘‘ کہ دونوں کے راوی ثقہ ہیں۔ اس سے بھی ہمارے موقف کی تائید ہوتی ہے کہ اس کے راوی ثقہ و صدوق ہیں اور یہ سند حسن درجہ سے قطعاً کم نہیں۔ حافظ ابن حجر نے بحوالہ البزار اسے مختصراً ذکر کیا اور خاموشی اختیار کی ہے(فتح الباری :ج ۸ ص ۷۴۲)۔
زربن حبیش کی روایت
زربن بن حبیش کے واسطے سے ابن کثیر، بخاری اور فتح الباری کے حوالے سے روایات نقل کرنے کے بعد ڈیروی صاحب لکھتے ہیں کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ معوذتین کی قرآنیت کو تسلیم کرتے تھے اور خود پڑھا بھی کرتے تھے جب کہ مسند احمد کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف معوذتین کا لکھنے کے بارے میں تھا پڑھنے کے بارے میں نہیں تھا۔ اور جن روایات میں ’’ لیستا من کتاب اللہ ‘‘ آتا ہے کہ دونوں قرآن مجید میں سے نہیں تو یہ سند کے لحاظ سے صحیح نہیں، ملخصاً (ایک نظر: ص