کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 141
دوسرااعتراض اوراس کا جواب
اس سند پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس میں حسان رحمہ اللہ بن ابراہیم ہے جو ضعیف اور خطا کار ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: صدوق یخطئ سچا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے لیس بالقوی کہا ہے ۔ ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سچا ہے مگر غلط کار ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کی بعض حدیثوں کا انکار کیا ہے(یعنی غلط ہیں) اور عقیلی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث میں وہم و خرابی ہے۔ علی رحمہ اللہ بن مدینی نے کہا ہے کہ ثقہ ہے مگر تقدیر کا سخت منکر ہے اور ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقات میں کہا ہے کہ اس نے اکثر غلطیاں کی ہیں۔ (نو ر الصباح: ص ۱۳۹،۱۴۰)
حسان بن ابراہیم ثقہ و صدوق ہیں ضعیف نہیں
نقل جرح میں ڈیروی صاحب نے جو کرتب دکھایا اس کی وضاحت سے پہلے یہ دیکھیے کہ لکھتے ہیں : ’’وہ ضعیف اور خطاکار ہے۔‘‘ گویا حسان رحمہ اللہ بن ابراہیم ضعیف راوی ہے اور خطاکار ہے۔ یہ اس پر ’’ضعیف ‘‘ ہونے کا دعویٰ کس بنیاد پر ہے اور ائمہ جرح و تعدیل میں سے کس نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ خلاصہ کے طور پرحافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالہ سے تو وہ خود ’’ صدوق یخطئ‘‘ کہ سچا ہے مگر خطا کرتا ہے۔صدوق اور سچا ہونا نقل کریں ، یہ ضعیف کا فیصلہ کس کا ہے اور کس بنیاد پر مبنی ہے؟ بلکہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے المغنی (ج ۱ ص ۱۵۶) اور دیوان الضعفاء (ص ۵۵) میں اسے ثقہ کہا ہے اور امام نسائی رحمہ اللہ سے ’’ لیس بالقوی‘‘ نقل کیا ہے۔ چنانچہ ان کے الفاظ ہیں ’’ ثقۃ قال النسائی لیس بالقوی‘‘ا ور السیر(ج۹ ص ۴۰) میں ’’ الامام الفقیہ المحدث‘‘ کے القاب سے یاد کیا ہے۔ اور اسے ’’ من تکلم فیہ وھو موثق‘‘(رقم : ۸۵) میں ذکر کیا ۔ہمیں بتلایا جائے کہ یہ ’’ضعیف‘‘ کا فیصلہ کیسے اور کہاں سے آ گیا؟
علاوہ ازیں امام ابن معین رحمہ اللہ اور دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے(التہذیب۔ السیر) امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے کہا ’’ لا بأس بہ‘‘ امام ابن معین رحمہ اللہ سے ’’ لا بأس بہ‘‘ کا قول بھی منقول ہے۔ امام علی رحمہ اللہ بن مدینی قدری کہنے کے باوجود ثقہ کہتے ہیں اور اس سے روایت لیتے ہیں۔ لہٰذا