کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 140
دوسری سند جس میں حسان بن ابراہیم ہے ۔تو نورا لصباح میں لکھتے ہیں: پہلا اعتراض اوراس کا جواب اولاً:اس کی سند میں ازر ق بن علی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تقریب میں فرماتے ہیں : ’’ صدوق یغرب‘‘سچا ہے مگر اپنی روایت میں متفرد ہوتا ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی ثقات میں کہا ہے کہ یہ غریب حدیث لاتے ہیں۔ ازرق بن علی رحمہ اللہ صدوق ہیں ضعیف نہیں ہم اس کے جواب میں کیا عرض کریں۔ بس ان کے شیخ مکرم کے حوالے سے عرض ہے لکھتے ہیں: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ذکرہ ابن حبان فی الثقات و قال یغرب، ابن حبان نے ان کو ثقات میں لکھا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ غریب حدیث لاتے ہیں اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں صدوق یغرب کہ وہ سچے راوی ہیں اور غریب حدیث لاتے ہیں۔ فن روایت میں راوی کے لیے سب سے بڑھ کر جس صفت کی ضرورت ہے وہ اس کی صداقت ہی ہوتی ہے (مع دیگر شروط کے) اور یہ صاحب اس صفت سے متصف تھے اور اپنے مقام پر یہ بات آئے گی کہ غرابت صحت کے منافی نہیں۔(تسکین الصدور :ص ۲۱۹) پھر اس روایت کی صحت کو انھوں نے علامہ سبکی رحمہ اللہ وغیرہ کے حوالے سے بیان کیا ۔ رہا ان کا یہ فرمان کہ اپنے مقام پر یہ بات آئے گی کہ غرابت صحت کے منافی نہیں۔ تواس کی تفصیل انھوں نے تسکین الصدور (ص ۳۳۲،۳۳۴) میں مختلف حوالوں سے بیان کی ہے۔ قارئین کرام ! انصاف کیجیے کہ اس روایت پر جو پہلا اعتراض ’’تلمیذ رشید‘‘ نے کیا ’’شیخ مکرم ‘‘ گویا اس کا جواب پہلے سے دے چکے مگر ’’ملاں آں باشد کہ چپ نہ شود۔‘‘ علاوہ ازیں ازرق بن علی اس میں منفرد نہیں۔ مسند بزار میں محمد بن ابی یعقوب الکرامی ان کا متابع موجود ہے۔ (کشف الاستار:ج ۳ ص ۸۶)