کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 139
کی طرح تار تار ہو جاتا اس لیے دھوکا دینے اور اپنے علم وفضل کا رعب جمانے کے لیے انھوں نے فتح الباری کے حوالے پر اکتفا کی۔ انصاف شرط ہے کہ قصور وار کون ہے؟ چونواں دھوکا اس قول کی دوسری سند راقم نے ذکر کیا تھا کہ عبدالرحمن رحمہ اللہ کے علاوہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یہی قول جناب علقمہ رحمہ اللہ اور زربن حبیش رحمہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ ، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ ،المطالب العالیہ وغیرہ،توضیح (ج ۲ ص ۴۳) مولانا ڈیروی صاحب نے تفسیر ابن کثیر(ج ۴ ص ۴۷۱) سے بلکہ (ج ۴ ص ۵۷۱) سے الاعمش عن ابی اسحاق عن علقمۃ کی سند نقل کرکے فرمایا۔ اس کی سند میں بھی الاعمش عن ابی اسحاق عن علقمۃہے، اثری صاحب نے سند ظاہر نہیں کی(ایک نظر: ص ۲۰۰)گویا اس میں بھی الاعمش رحمہ اللہ اور ابواسحاق رحمہ اللہ مدلس ہیں۔ یہ سند ڈیروی صاحب کی بناوٹی ہے حالانکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے الاعمش عن ابی اسحاق عن علقمۃ کی سند سے یہ روایت قطعاً ذکر نہیں کی۔ یہ بھی ڈیروی صاحب کا سراسر دھوکا ہے بلکہ انھوں نے ابویعلی کے حوالہ سے بواسطہ حسان بن ابراہیم حدثنا الصلت بن بھرام عن ابراہیم عن علقمۃ یہ روایت ذکر کی ہے، جسے نمبر۳ کے تحت ڈیروی صاحب نے نقل کیا اور فرمایا کہ حسان بن ابراہیم کی سند پر جرح نور الصباح میں ملاحظہ کریں۔ نیز امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حسان کی حدیثوں میں بعض اوپری چیزیں واقع ہوتی ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۰۰) ان کے حکم پر ہم نے نور الصباح (ص ۱۳۹) دیکھی۔ لطف یہ کہ اس کے ص ۱۳۷ پر بھی تفسیر ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے پہلے یہی سند ذکر کی ہے: عن الاعمش عن ابی اسحاق عن علقمۃ قال کان عبداللّٰه اوراس میں ابواسحاق رحمہ اللہ کی تدلیس و اختلاط اور علقمہ سے ان کا سماع نہ ہونے کا اعتراض بڑے شدومد سے کیا۔ مگر ہمارا سوال یہ ہے کہ تفسیر ابن کثیر میں یہ سند ہے کہاں؟ یقین جانیے یہ محض خانہ ساز ہے اور صریح جھوٹ پر مبنی ہے۔ رہی