کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 138
اثری صاحب نے ذکر کی لیکن الاعمش عن ابی اسحاق کا ذکر چھوڑ کہ عبدالرحمن سے بسم الله کی ، معلوم ہوا کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے۔ اثری صاحب نے لکھا ہے کہ الاعمش مشہور مدلس ہیں بلکہ ضعفاء سے بھی تدلیس کرتے ہیں۔ ابواسحاق کو بھی مختلط ومدلس قرار دیتے ہیں، وغیرہ ۔ لہٰذا یہ روایت صحیح کیسے ہوئی ؟(ایک نظر: ص ۲۰۱،۲۰۳) بددیانتی کی انتہا جناب ڈیروی صاحب نے فتح الباری کے حوالے سے اس روایت کی سند نقل کرکے جو اعتراض کیا ،وہ یہ ہے۔ کہ اس میں الاعمش رحمہ اللہ اور ابواسحاق رحمہ اللہ مدلس ہیں اور ابواسحاق رحمہ اللہ تو مختلط بھی ہے ، لہٰذا اثری صاحب کے نزیک صحیح کیسے ہوئی؟ حالانکہ الاعمش رحمہ اللہ اس میں منفرد نہیں ، مصنف ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ (ج ۱۰ ص ۵۳۸) میں، جس کا حوالہ راقم نے توضیح میں دیا، ابوالاحوص بھی ابواسحاق سے یہ روایت بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح طبرانی (ج ۹ ص ۲۶۸) میں سفیان رحمہ اللہ اور شعبہ رحمہ اللہ بھی یہ روایت ابواسحاق رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں اور ان روایات میں بھی ہے کہ وہ مصحف سے معوذتین مٹاتے اور فرماتے تھے کہ مصحف میں وہ چیز کیوں ملاتے ہو جو اس میں سے نہیں ہے۔ لم تزیدون ما لیس فیہ اس لیے الاعمش رحمہ اللہ منفرد نہیں اور چونکہ شعبہ رحمہ اللہ کی روایت ابواسحاق رحمہ اللہ سے سماع پر محمول ہوتی ہے ۔ جیسا کہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم نے احسن الکلام (ج ۲ ص ۱۲۳) میں لکھا ہے۔ لہٰذا ابواسحاق رحمہ اللہ کی تدلیس کا اعتراض بھی ختم ۔ بلکہ مولانا صفدر صاحب تو لکھتے ہیں کہ ’’شعبہ رحمہ اللہ کے متعلق یہ ضابطہ ہے کہ وہ صرف صحیح حدیث ہی اپنے مشائخ سے نقل کرتے ہیں(احسن حاشیہ: ج۱ ص ۱۸۰)۔ نیز شعبہ رحمہ اللہ ، سفیان رحمہ اللہ او ر ابوالاحوص رحمہ اللہ کی ابواسحاق رحمہ اللہ سے روایات صحیحین میں موجود ہیں نہایۃ الاغتباط (ص ۲۷۹ الکواکب النیرات :ص ۱۵۱ ) ۔لہٰذا ابواسحاق پر نہ یہاں اختلاط کی بنا پر اعتراض صحیح ہے اور نہ ہی تدلیس کی بنا پر۔ ہم نے اس روایت کے لیے باقاعدہ ابن ابی شیبہ اور طبرانی کا حوالہ دیا ہے۔ ڈیروی صاحب کی ذمہ داری تھی کہ وہ فتح الباری کے علاوہ ان حوالوں کی طرف بھی مراجعت کرتے، لیکن ایسا انھوں نے اس لیے نہیں کیا کہ اس سے ان کا اعتراض تار عنکبوت