کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 137
اسی طرح ان کا یہ کہنا کہ ’’علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا اس حدیث کے بارے رجالہ موثقون کہنا سیوطی کے حسن کہنے کی تردید ہے تو دو متضاد قول سے کیسے عیاں ہو گیا کہ اس حدیث کے راوی ثقہ اور صدوق ہیں۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۴۰)
بنیادی طور پر یہ ساری کارروائی اس غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس کی وضاحت ابھی ہم کر آئے ہیں۔ پھر یہ بات بھی عجیب کہی کہ ’’علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا ’’ رجالہ موثقون‘‘ کہنا علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے حسن کہنے کی تردید ہے۔‘‘ کوئی ان سے پوچھے کہ جناب علامہ ہیثمی رحمہ اللہ پہلے ہیں یا علامہ سیوطی رحمہ اللہ ؟ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ ۸۰۷ھ میں فوت ہوئے جب کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ ۸۴۹ھ میں پیدا ہوئے۔ لہٰذا علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے تردید کی ہے یا علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ؟ ہم نے الله تعالیٰ کی توفیق سے ثابت کیا ہے کہ دونوں میں کوئی تضاد نہیں۔ بعض راویوں میں کچھ کلام کی وجہ سے علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے رجالہ موثقون کہا اور اس کے راویوں پر کلام کی تفصیل سے معلوم ہوا کہ وہ کلام ایسا نہیں کہ راوی ضعیف ہوں ۔ اس لیے ان کی حدیث حسن درجہ کی ہے۔ جیسا کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے کہابلکہ علامہ العلقمی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن ہی قرار دیا ۔
ترپنواں دھوکا
حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ اور معوذتین
راقم اثیم نے ذکر کیا کہ عبدالرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ مصاحف سے معوذتین کو مٹاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ دونوں سورتیں کتاب الله میں سے نہیں، یہ روایت مسند احمد (ج ۵ ص ۱۲۹) ، طبرانی (رقم : ۹۱۵۰)، ابن ابی شیبہ (ج ۱۰ ص ۵۳۸) وغیرہ میں موجود ہے۔ ‘‘(توضیح: ج ۲ ص ۴۳) اس حوالے سے مولانا ڈیروی صاحب کی گوہر افشانی قابل دید ہے۔ سردست اس سے قطع نظر یہ دیکھیے کہ حضرت موصوف لکھتے ہیں: حدیث کی سندیں ملاحظہ ہوں: اخرجہ عبداللّٰه بن احمد فی زیادات المسند والطبرانی وابن مردویہ من طریق الاعمش عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یزید النخعی۔ (فتح الباری: ج ۸ ص ۷۴۲)یہ وہی روایت ہے جو