کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 136
علماء نے بھی ’’رجالہ موثقون‘‘ کے معنی یہی کیے ہیں کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔ مگر کوئی حضرت شیخ الحدیث صاحب سے پوچھے کہ آپ ایمانداری سے بتائیں کہ کیا رجالہ موثقونکے اس معنی پر آپ کا اتفاق ہے؟ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو طبرانی کی اس روایت کے راویوں پر جو جرح آپ نے کی وہ کیونکر درست ہے ؟ راہ سیدھی چل کہ اک عالم تجھے سیدھا کہے کجروی بہتر نہیں اے شوخ ! یہ رفتار چھوڑ اسی طرح اس ضمن میں ان کا یہ اعتراض کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے طبرانی کی روایت کے بارے میں اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کے اثر کے متعلق ’’رجالہ موثقون‘‘ کہا ہے یہاں کیوں نہیں کہا جاتا کہ یہ روایت اور اثر ضعیف ہے اوراس کے راوی ثقہ نہیں۔‘‘ بلکہ ہشام رضی اللہ عنہ کے اثر کو صحیح کہا اور حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بھی صحیح کہا۔ یہ جھوٹ ہے اور تضاد ہے۔ملخصًا(ایک نظر: ص ۲۳۵۔۲۳۶) نہایت افسوس کا مقام ہے کہ شیخ الحدیث کے منصب پر فائز بزرگ بھی بات کو بگاڑنے اور اپنا الّو سیدھا کرنے کی بڑی دلیری سے جرات کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ راقم نے یہ کہا ہے کہ رجالہ موثقون کے راوی ضعیف ہوتے ہیں حالانکہ ایسا قطعاً نہیں بلکہ آئینہ (ص ۴۹) میں الفاظ ہیں کہ ’’ اس سے راویوں کا ثقہ ہونا مراد نہیں ہوتا بلکہ اس کافیصلہ ائمہ ناقدین کے اقوال کی روشنی میں کیا جائے گا کہ وہ توثیق قابل اعتبار ہے یا نہیں؟‘‘ بات بالکل واضح ہے کہ توثیق قابل اعتبار ہے تو فبہا ورنہ یہ جملہ راویوں کی توثیق کی دلیل نہیں۔ حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کا اثر ہو یا حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث دونوں کے راوی ثقہ وصدوق ہیں۔ گو بعض میں کچھ کلام ہے مگر وہ ایسا نہیں کہ اس سے راوی کو ضعیف کہا گیا ہو۔ جیسا کہ ہر ایک راوی کا بحوالہ ذکر کر دیا گیا ہے۔ اب مولانا ڈیروی صاحب کی ذمہ داری ہے کہ وہ ثابت کریں کہ ان میں فلاں راوی فی الواقع ضعیف ہے اور اس کی روایت مردود روایتوں میں شمار ہوتی ہے لیکن نہ انھوں نے ایسا کیا نہ ہی کر سکتے ہیں۔ولوکان بعضھم لبعض ظھیراً۔