کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 135
’’ رجالہ موثقون‘‘ کا جوترجمہ مولانا صفدر صاحب نے کیا ہے کہ ’’اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔‘‘ درست نہیں۔ اس سلسلے میں چند مثالوں سے یہ بات واضح کر دی گئی کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کے اس قول سے ’’راویوں کا ثقہ ہونا مراد نہیں ہوتا۔ فی الجملہ توثیق مراد ہوتی ہے اورا س کا فیصلہ ائمہ ناقدین کے اقوال کی روشنی میں کیا جائے گا کہ وہ توثیق قابل اعتبار ہے یا نہیں۔‘‘ بلکہ خود مولانا صفدر صاحب کے حوالہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ طبرانی میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی روایت ’’ من قرأ خلف الامام فلیقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘ کے بارے میں بھی علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے ’’ رجالہ موثقون ‘‘ فرمایا ہے تو کیا مولانا صفدر صاحب کے نزدیک اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ یہ ساری تفصیل (آئینہ : ص ۴۵،۴۹) میں ملاحظہ فرمائیں۔ پھر دیکھیں کہ ہمارے مہربان جناب ڈیروی صاحب کیا فرماتے ہیں ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:’’ہمارے شیخ مکرم پر یہ اعتراض اس صورت میں ہے جب کہ وہ روایت مولانا اثری صاحب کے موافق نہ ہو اگر وہ روایت مولانا اثری صاحب کے موافق ہو تو وہاں مولانا صفدر صاحب دام مجدہم سے ’’ رجالہ موثقون‘‘ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ اپنے حق میں نقل کرکے خاموشی اختیار کریں گے اور جرح بالکل نہ کریں گے۔‘‘ (ایک نظر: ص ۲۳۵)
محترم قارئین! آپ ’’آئینہ ‘‘میں دیکھ رہے ہیں کہ طبرانی کی روایت ہمارے حق میں ہونے کے باوجود ہم نے مولانا صفدر صاحب سے عرض کیا کہ’’ کیا یہاں بھی اس کے معنی یہی ہیں کہ اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘اسی طرح توضیح الکلام (ج ۱ ص ۳۹۲) میں طبرانی کی یہی روایت راقم نے دسویں حدیث کے عنوان کے تحت ذکر کی ۔ خوردبین لگا کر دیکھیے کہ ہم نے مولانا صفدر صاحب کے اس ترجمہ کو کہ’’اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘ اپنے حق میں ذکر کیا؟ ہرگز نہیں۔ لہٰذا جناب ڈیروی صاحب کا یہ کہنا کہ یہ صرف ہمارے شیخ مکرم پر اعتراض ہے ۔اپنے حق میں یہ الفاظ نقل کرکے وہ خاموش رہتے ہیں ، جرح نہیں کرتے ، سراسر دھوکا اور غلط بیانی پر مبنی ہے۔ وہ اس کی کوئی مثال تو پیش نہ کر سکے البتہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے اور تیس مارخان بننے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ فلاں اور فلاں اہلحدیث