کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 134
بلاشبہ درست ہے۔جامع التحصیل (ص ۲۵۱) میں بھی ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ سے ان کی روایت مرسل ہے۔ لیکن علمائے احناف کا تو اصول ہے کہ قرون ثلاثہ کا انقطاع نقصان کا باعث نہیں(انہاء السکن: ص ۳۹، اعلاء السنن : ج ۴ ص ۱۷۰ وغیرہ) اس لیے حنفی اصول کی روشنی میں یہ اعتراض درست نہیں۔
اس لیے عرض کیا تھا کہ ’’اس حدیث‘‘ کے سب راوی ثقہ اور صدوق ہیں۔‘‘ (توضیح: ج ۱ ص ۳۹۳) ۔ ہماری اس وضاحت سے اس کی مزید تائید ہو جاتی ہے اورا س حوالے سے ڈیروی صاحب کے اعتراضات کی نوعیت بالکل واضح ہو جاتی ہے۔
اکاونواں دھوکا
طبرانی میں حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہم نے دراصل حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی مفصل روایت کی تائید میں پیش کی ہے اوراس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ ہماری ان گزارشات سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث صحیح ہے اور محدثین کی ایک جماعت نے اس کی تصحیح و تحسین کی ہے۔‘‘(توضیح: ج ۱ ص ۳۹۴) اورا س کے بعد کا کلام اس کا واضح طور پر مؤید ہے ۔’’ مگر مؤلف احسن الکلام فرماتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام حاکم کی تصحیح کا کوئی اعتبار نہیں۔۔‘‘الخ غور فرمائیے امام ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ کی تصحیح کس کے بارے میں ہے۔ مگر اتنی سیدھی بات بھی ڈیروی صاحب کی سمجھ میں نہ آئی اور عجلت میں سمجھ لیا کہ طبرانی کی روایت کو صحیح کہا گیا ہے۔ ان کے الفاظ ہیں: حسن تو سیوطی کے قول سے بیان کیا تھا۔ یہ صحیح کہاں سے عیاں ہو گیا؟(ایک نظر: ص ۲۴۰) ہم اس پر اس کے بغیر اور کیا عرض کریں ۔ یہ بھی العجلۃ من الشیطن کہ عجلت بازی شیطان سے ہے (الحدیث)، کا نتیجہ ہے اور توجیہ القول بما لا یرضی بہ القائل کا مصداق ہے۔
باونواں دھوکا
رجالہ موثقون اور ڈیروی صاحب کی بے اصولی
راقم نے ’’آئینہ ان کو دکھایا تو برامان گئے‘‘ میں عرض کیا تھا کہ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کے الفاظ