کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 133
’’میزان میں علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے قول سے کہ :یہ حدیث فلاں کی مناکیر میں سے ہے یااس کی روایت میں یہ بہت منکر ہے دھوکا میں مبتلا نہ ہو جاؤ اور محض اس کی بنیاد پر اس کے ضعف کا حکم نہ لگاؤ کیونکہ وہ اس سے صرف اس کا تفرد مراد لیتے ہیں۔ ‘‘لہٰذا علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے اس قول سے جو اس روایت کو ’’انتہائی ضعیف‘‘ قرار دیا گیا ہے وہ مولانا عثمانی رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق محض دھوکا پر مبنی ہے۔
مزید یہ کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ ہی نے نہیں ان کے تلمیذ علامہ علقمی رحمہ اللہ نے بھی اس کو حسن قرار دیا ہے۔ جیسا کہ مولانا مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحقیق الکلام میں نقل کیا ہے۔
شیخ مکرم اور تلمیذ رشید
اسی روایت پر بحث کے ضمن میں تلمیذ رشید نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مختلط راوی سے شاگرد قدیم السماع جب تک روایت نہ کرے تو وہ روایت قابل قبول نہیں ہوتی اصل ضابطہ یہی ہے۔(ایک نظر: ص ۲۳۸) بجا فرمایا مگر یہ اصل ضابطہ شیخ مکرم کو بھی سمجھا دیں جنھوں نے حماد پر اختلاط کے الزام کے جواب میں فرمایا ہے کہ ’’ جب حمادثقہ ہے تواس روایت میں اختلاط سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔کیونکہ محدثین نے اس امر کی تصریح کی ہے کہ ان کو اختلاط کا عارضہ آخر میں لاحق ہواتھا اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی روایتوں میں خطا نہیں کرتے۔‘‘ (احسن : ج ۱ ص ۳۲۱)
امید ہے کہ تلمیذ رشید، شیخ مکرم کی یہ غلط فہمی دور کر دیں گے۔ دیدہ باید!
چوتھا اعتراض اور اس کا جواب
مکحول مدلس ہے اور روایت معنعن ہے(ایک نظر:۲۳۹)مگر توضیح میں اس کی وضاحت کر دی گئی کہ وہ اصطلاحی مدلس نہیں۔ نیز خیر القرون کے مدلسین کی روایت احناف کے ہاں مقبول ہے۔ لہٰذا ڈیروی صاحب کو اپنے اصول کی تو پابندی کرنی چاہیے۔
پانچواں اعتراض اور اس کا جواب
عبادۃ بن نسی کی ملاقات حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں (ایک نظر:۲۳۹)یہ اعتراض