کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 132
ہے: عبداللّٰه بن عمرو بن حسان ثنا سعید بن عبدالعزیز التنوخی قال سمعت مکحولاً اب یہاں سعید رحمہ اللہ سے عبدالله رحمہ اللہ بن عمرو روایت ذکر کر رہا ہے۔ ۔ملخصاً (ایک نظر: ص ۲۳۸)
ذرا غور فرمائیے! کیا اجازت کے بغیر اگر کوئی روایت کرتا ہے تو وہ روایت درست ہوگی ؟ہرگز نہیں، پھربلادلیل ڈیروی صاحب عبدالله بن عمرو بن حسان کی روایت کو بلااجازت تصور کرتے ہیں اور اسے خود کذاب تسلیم کرتے ہیں(ایک نظر: ص ۱۰۳) جب کہ زیر بحث روایت میں سعید بن عبدالعزیز سے روایت کرنے والا عتبہ رحمہ اللہ بن حماد ابوخلید ہے اور وہ صدوق ہے۔(تقریب: ص ۳۵۰) پھر جب اختلاط کے دوران وہ اجازت نہیں دیتے تھے تواس کے بعد یہ دعویٰ بلادلیل ہے کہ فلاں اورفلاں نے سماع بعد از اختلاط کیا ہے۔
البتہ علامہ المناوی رحمہ اللہ نے فیض القدیر(ج۱ ص ۱۷۱) میں لکھا ہے: قال الذھبی نکرۃکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کی حدیث منکر ہے۔ اسی بنا پر ڈیروی صاحب وغیرہ نے لکھا ہے کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کے بقول جب یہ منکر ہے تواس کے انتہائی ضعیف ہونے میں کیا شبہ رہ جاتا ہے ۔(ایک نظر: ص ۲۴۱)
حالانکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ قول میزان، تاریخ اسلام، السیر، الکاشف، تذہیب ،العبر، المغنی میں قطعاً نہیں بلکہ الکاشف (ج ۱ ص ۳۶۶) میں امام نسائی رحمہ اللہ سے ثقہ ثبت نقل کرتے ہیں۔ السیر میں’’الامام القدوۃ مفتی دمشق‘‘ کے القاب سے یاد کرتے ہیں البتہ وہ فرماتے ہیں امام زہری رحمہ اللہ سے روایت کرنے میں وہ ’’ لیس بذاک‘‘ ہے ۔ مگر یہ روایت امام زہری رحمہ اللہ سے نہیں۔ بالفرض اگر یہ قول علامہ ذہبی رحمہ اللہ سے ثابت ہے تو کیا اسی سے یہ روایت ’’انتہائی ضعیف‘‘ ثابت ہو جاتی ہے؟ مولانا ظفر احمد عثمانی تو لکھتے ہیں:
فلا تغتر بقول الذھبی فی المیزان ۔۔۔ ان ھذا الحدیث من مناکیر فلان أو من انکر ما رواہ ، ولا تحکم علیہ بالضعف بمجرد ھذا القول لانھم یریدون بذلک کونہ متفردا بہ فحسب۔ (انہاء السکن : ص ۶۵)