کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 131
ضعیف ہیں جیسا کہ الرفع والتکمیل (ص ۱۴۴) اور انہاء السکن (ص ۶۵) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ پھر علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے سلیمان رحمہ اللہ کی منکر روایت قرار دیا ہے تو میزان (ج ۴ ص ۳۴۷) اور السیر (ج ۹ ص ۲۱۷) میں اسے ولید بن مسلم کی منکرات میں شمار کیا ہے اور مولانا لکھنوی رحمہ اللہ نے بھی ان کا یہ قول الرفع والتکمیل(ص ۱۴۸،۱۴۹) میں نقل کیا ہے اور سلیمان کا جرم وہ صرف یہ بتاتے ہیں کہ اس نے ولید بن مسلم حدثنا ابن جریج کہاہے جس سے ولید رحمہ اللہ کی تدلیس مرتفع ہو گئی۔ حالانکہ ولید رحمہ اللہ مدلس ہی نہیں بلکہ تدلیس التسویہ سے بھی کام لیتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب (ص ۵۴۲) میں کہا ہے اور اسی بنا پر علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے الضعیفہ نمبر۳۳۷۴ میں ذکر کیا ہے ۔ لہٰذا اصل علت اس کی ولید کی تدلیس تسویہ ہے، سلیمان بن عبدالرحمن نہیں، جو کہ ثقہ اور صدوق ہیں۔امام دارقطنی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا سلیمان رحمہ اللہ منکر روایت بیان نہیں کرتا توانھوں نے فرمایا: یحدث بھا عن قوم ضعفاء اما ھو فثقۃ کہ وہ ضعفاء سے منکر روایات بیان کرتا ہے مگر وہ خود ثقہ ہے۔(التہذیب: ج ۴ ص ۲۰۸) یہی بات امام ابن حبان رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی کہی ہے۔ اس لیے ضعفاء سے روایت لینے یا اس کی کسی روایت کے منکر ہونے سے راوی کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ بلکہ خود ڈیروی صاحب سلیمان رحمہ اللہ کو ’’مختلف فیہ‘‘ راوی قرار دیتے ہیں اورا یسے راوی کی حدیث کو ان کے شیخ مکرم کے نزدیک بلکہ حنفی اصول میں بھی حسن قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بحوالہ گزر چکا ہے۔ لہٰذا اس روایت میں بھی ضعف کا سبب ولید رحمہ اللہ کی تدلیس التسویہ ہے،سلیمان رحمہ اللہ نہیں۔
تیسرا اعتراض اور اس کا جواب
سعید بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی اس سند میں ایک راوی ہے۔ اس کو آخری عمر میں اختلاط کا عارضہ ہو گیا تھا۔ اثری صاحب کا یہ لکھنا کہ امام ابن معین رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ اس حالت میں ان پر قراء ت کی جاتی تو فرماتے میں اس کی اجازت نہیں دیتا، لیکن یہ بات صحیح نہیں۔ بعض راوی اپنے شیخ سے روایت کر گزرتے ہیں اگرچہ اجازت نہ ہو، مثلاً اثری صاحب خو د مکحول رحمہ اللہ کی ایک من گھڑت روایت نقل کرتے ہیں جو کہ نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ اس کی سند اس طرح