کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 128
میزان میں نہیں۔ چنانچہ طبرانی کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
روا تہ کلھم ثقات اما اسحاق بن داو‘د فلأنہ لم یضعف فی المیزان و شیوخ الطبرانی الذین لم یضعفوا فیہ ثقات۔(اعلاء السنن :ج ۱ ص ۱۰)
اس کے سب راوی ثقہ ہیں، اسحاق رحمہ اللہ بن داو،د اس لیے کہ میزان میں اسے ضعیف نہیں کہا گیا اور طبرانی کے شیوخ جن کو میزان میں ضعیف نہیں کہا گیا ثقہ ہیں۔‘‘ اسی اصول پر انھوں نے (ج ۱ ص ۳۷) میں حسین رحمہ اللہ بن اسحاق اور (ج ۱ ص ۲۸۰) میں ایک شیخ طبرانی کو ثقہ قرار دیا ہے کیا ہم یہاں حویت رحمہ اللہ کے بارے میں اسی اصول کی بنیاد پرثقہ ہونے کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ لیکن یہاں تو علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کے راویوں کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی توثیق کی گئی ہے۔ بلکہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ اور علامہ العلقمی رحمہ اللہ نے بھی اس کو حسن کہا ہے۔ مگر حویت پھر بھی ’’مجہول‘‘۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں کہا تھا کہ اس کی سند میں امام بزار رحمہ اللہ کے شیخ ہارون بن سفیان کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
’’ لا یضرنا عدم وجدانہ بعد تصحیح العلقمی للحدیث۔‘‘ (اعلاء السنن : ج ۳ ص ۸۲)
علامہ العلقمی رحمہ اللہ کی تصحیح کے بعد علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ہارون بن سعید رحمہ اللہ کا ترجمہ مجھے نہیں ملا۔ ہمیں کوئی نقصان نہیں دیتا۔ کیا ہم اس انصاف کی توقع حویت بن احمد کے بارے میں رکھ سکتے ہیں؟ علامہ سیوطی رحمہ اللہ متساہل سہی جیسا کہ مشہور ہے مگر علامہ العلقمی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ ان کا قول یہاں مردود کیوں؟
دوسرا اعتراض اور اس کا جواب
دوسرا راوی اس میں سلیمان رحمہ اللہ بن عبدالرحمن ہے جو متکلم فیہ ہے۔ اثری صاحب نے ان کے بارے میں صالح بن محمد کا قول نقل کیا ہے کہ وہ لا بأس بہ اس کے آخر میں تھا ولکنہ یحدث عن الضعفاء لیکن وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتا ہے۔ اسے