کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 127
نہیں کی مگر چھ حضرات کا اس سے روایت لینا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ مجہول نہیں جیسا کہ ڈیروی صاحب نے بڑے دھڑلے سے انھیں مجہول کہا ہے۔
ثبوت عدالت کا ایک اصول
یہاں یہ بات بجائے خود بحث طلب ہے کہ کسی راوی کی عدالت کیونکر متحقق ہوگی۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جو راوی معروف العنایہ ہویعنی محدثین کے ہاں وہ معروف راویان حدیث میں شمار ہوتا ہو جب تک جرح ثابت نہ ہو اسے عادل قرار دیا جائے گا۔
یہی رائے امام اسماعیل بن اسحاق المتوفی ۲۸۲ ، علامہ ابن المواق رحمہ اللہ ، علامہ المزی رحمہ اللہ ، علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ ، علامہ ذہبی رحمہ اللہ ،علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ وغیرہ کی ہے۔ جیسا کہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فتح المغیث کی النوع الثالث والعشرون میں ذکر کیا ہے۔شیخ ابوغدہ جو نامور حنفی علماء میں شمار ہوتے ہیں انھوں نے اس کی تائید کی ہے۔جس کی تفصیل ’’خمس رسائل فی علوم الحدیث‘‘ کے حواشی (ص ۸۸،۹۲) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس لیے کم از کم حنفی علما کو تواس قاعدے کی بنا پر حویت بن احمد ابوسلیمان القرشی کو مجہول کہنے سے گریز کرنا چاہیے جب کہ وہ متعدد شیوخ کے شاگرد ہیں اور امام طبرانی رحمہ اللہ ، حافظ ابن نصر رحمہ اللہ جیسے اعیان کے علاوہ چار سے زائد حضرات ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
علاوہ ازیں علامہ ہیثمی رحمہ اللہ کا یہ فرمانا کہ امام طبرانی رحمہ اللہ کے شیوخ جن کا ذکر میزان میں نہیں وہ تمام عادل اور ثقہ ہیں (مقدمہ مجمع الزوائد :ج۱ ص ۸) بلکہ مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ مرحوم تو فرماتے ہیں طبرانی کے مشائخ کی کوئی تخصیص نہیں۔ جس راوی کی تضعیف میزان میں نہیں ہمارے لیے جائز ہے کہ ہم اسے ثقہ سمجھیں۔ ان کے الفاظ ہیں:
وعلی ھذا فیجوز لناالحکم بتوثیق کل راو لم یضعف فی المیزان بھذا الاصل سواء کان من شیوخ الطبرانی ام لا ۔ (انہاء السکن : ص ۵۸)
پھر اسی اصول کی بنا پر مولانا عثمانی رحمہ اللہ نے ان راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے ، جن کی تضعیف