کتاب: تنقیح الکلام فی تایید توضیح الکلام - صفحہ 125
قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا اس کی روایت پر جو حکم امام حاکم رحمہ اللہ نے لگایا اس کی موافقت کرتے ہیں۔ اس میں وہ تساہل کا شکار ہی نہیں ۔ بے سمجھی میں ڈیروی صاحب اسے بھی تضاد بنا کر دھوکا دے رہے ہیں۔ مزیدانھوں نے فرمایا کہ توضیح (ج ۲ ص ۶۳) میں ہے کہ ’’حدیث کی صحت کا مدار رواۃ پر ہوتا ہے۔اگر کوئی راوی ضعیف ہے تو کوئی اسے صحیح کہتا رہے اس سے روایت صحیح نہیں ہو جاتی۔ ‘‘ ڈیروی صاحب سمجھ رہے ہیں کہ یہ بھی تضاد ہے۔ مؤمل کی روایت کو صحیح کہنے سے وہ صحیح کیسے ہو جائے گی؟ مگر ہم ثابت کر آئے ہیں کہ مؤمل قطعاً ضعیف نہیں بلکہ ڈیروی صاحب کے شیخ مکرم اور حنفی اصول کے اعتبار سے بھی وہ ضعیف نہیں۔ مشہور حنفی مقلد عالم مولانا ظفر احمد عثمانی بھی اسے ثقہ اور حسن درجہ کا قرار دیتے ہیں۔مگر ضد کا مرض لاعلاج ہے۔ پھر یہ بھی ملحوظ خاطر رہے کہ راقم نے امام ذہبی رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ کے بارے میں یہ ساری بحث قاضی عبدالرحمن رحمہ اللہ بن حسن الاسدی کی روایت کے حوالے سے کی ہے جو بالاتفاق ضعیف ہے۔ اس کے بارے میں کوئی ادنیٰ کلمہ توثیق و تعدیل کا ہماری نظر سے نہیں گزرا۔ قاسم رحمہ اللہ بن ابی صالح نے تو فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے میزان (ج ۲ ص ۵۵۶) اور المغنی (ج ۲ ص ۳۷۸) میں کہا ہے۔ مگر مولانا صفدر صاحب اس کی بیان کردہ روایت کو اس بات سے سہارا دے رہے ہیں کہ امام حاکم رحمہ اللہ اور ذہبی رحمہ اللہ ان کو صحیح کہتے ہیں۔‘‘الخ (احسن حاشیہ: ج ۱ ص ۱۰۵) بتلائیے! جھوٹ بولنے والے کی روایت بھی صحیح ہو سکتی ہے؟ مگر افسوس ڈیروی صاحب اپنے شیخ مکرم کی اندھی تقلید میں جھوٹے کی روایت کو صحیح سمجھ رہے ہیں۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔ ڈیروی صاحب پر قرض ہے کہ اس جھوٹے کی روایت کے حوالے سے جو کچھ راقم نے عرض کیا اور توضیح (ج ۲ ص ۵۹،۶۳) میں اس کے تناظر میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے دلائل سے اس کا جواب دیں۔ بات کو ادھورا اوراس کے پس منظر کو نظر انداز کرکے نقل کرنا اور یوں اپنا الو سیدھا کرنا دھوکا بازوں کا کام ہے۔